Sunday 30 October 2016

The arrival of Islam in Kohsar
خطہ کوہسار سرکل بکوٹ اور کوہ مری گندھارہ تہذیب کا حصہ رہا ہے
سندھ سے بھی پہلے افغانستان کے راستے اسلام کا پیغام ٹیکسلا پہنچ چکا تھا
مسلم صوفیا کا  بھی سرکل بکوٹ کے راستے کشمیر جانے کا پتہ چلتا ہے
ٹیکسلا کے حکمران عسفیان نے خلیفہ مامون الرشید سے استدعا کر کے مسلم علما اپنے دربار میں بلائے، مشرف بہ اسلام ہوا اور یہاں مدرسہ ربانیہ کی بنیاد رکھی
اس مدرسہ سے تعلیم حاصل کرنے والوں میں مجدد الف ثانیؒ، مولانا عبدالرحیم، مولانا انور شاہ کشمیری، حضرت پیر مہر علی شاہؒ، مولانا غلام رسول ہزاروی، حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ جیسی ہستیاں شامل ہیں
بھوئی گاڑھ نامی اس قصبے میں ایک لائبریری بھی ہے جس میں ہزارہ کے قبائل سمیت پندرہ دیگر عنوانات کی قدیم کتابیں موجود ہیں جن میں حضرت پیر بکوٹی کے خطبہ جمعہ سے متعلق کتاب کا قلمی نسخہ بھی موجود ہے
موشپوری کا لفظ موکش سے نکلا ہے اور اس کے معنی نجات کے ہیں ، دوسرا خیال یہ ہے کہ اس کا نام موج پور تھا جو ڈھونڈ عباسی سردار موج خان کے نام سے منسوب ہے
تحقیق و تحریر: محمد عبیداللہ علوی

خطہ کوہسار تاریخی اعتبار سے گندھارہ تہذیب کا حصہ رہا ہے،  اس کا دارالحکومت معروف شہر قدیم ٹیکسلا تھا اور اس حوالے سے دیکھا جائے تو مملکت پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد بھی تیسری بار دارالحکومت بنا ہے، پہلا ٹیکسلا جو پانچ ہزار قبل مسیح سے پانچ سو ستر عیسوی تک، جب سفید ہنوں نے باختر وسطی ایشیا سے طوفان کی طرح آ کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور گندھارا سلطنت کی دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کے نتیجے میں اس شہر علم و ہنر کے باسی گنگا جمنا کے درمیانی دوآبے میں منتقل ہوئے، اس کے بعد جب مسلمان ایک ہزار عیسوی میں محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان آئے تو یہ علاقہ گکھڑوں کے سپرد کیا گیا اور اسلام آباد کے ایوان ہائے اقتدار سے متصل سید پور گائوں دوسری بار پوٹھوہار کا دارالحکومت بنا جبکہ تیسری بار انیس سو ساٹھ میں مملکت پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے اسی جگہ منتقل ہوا تو اس کا نام اسلام آباد رکھا گیا۔
تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ باب الاسلام سندھ سے بھی پہلے افغانستان کے راستے اسلام کا سرمدی پیغام ٹیکسلا پہنچ چکا تھا، آپ نے پہلے بھی میرا ایک آرٹیکل پڑھا تھا کہ صحابی رسول حضرت الوالعاصؓ حیات نبوی یا اس کے تھوڑے عرصہ بعد وسطی ایشیا اور افغانستان کے راستے ٹیکسلا تشریف لائے تھے، ایک مسیحی حواری پال کو تو ہند کے اس شہر بے مثال کی ہوا راس نہ آ سکی اور رام کے پجاریوں نے انہیں قتل کر دیا تھا مگر نبی برحق کے پروانے حضرت ابوالعاصؓ کو یہاں کے راجہ کے ہاں نہ صرف پذیرائی ملی بلکہ آپ نے چھ سو چھتیس عیسوی میں یہاں بر صغیر کی پہلی مسجد بھی قائم کی، دین حق کی تبلیغ اشاعت کیلئے ایک چھوٹی سوی جماعت بھی تشکیل دی اور یہ بات بھی پائیہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ آپ ٹیکسلا سے لورہ، تھوبہ (باڑیاں)، ملکوٹ، دیول اور کھودر سے دریائے جہلم عبور کر کے کشمیر پہنچے، کچھ عرصہ وہاں قیام کیا اور پھر دہلی چلے گئے ۔۔۔۔ ان صحابی رسول کے آمد کے تین عشروں بعد خلیفہ ثالث حضرت عثمانؓ کے عہد میں عبدالرحمان بن شمر نے کابل فتح کیا اور ایک عرب جرنیل مہلب بن سفرہ دریائے سندھ عبور کر کے ٹیکسلا آیا اور یہاں سے وہ ملتان بھی گیا، اس عہد میں مسلم صوفیا کا وسطی ہند اور سرکل بکوٹ کے راستے کشمیر بھی جانے کا پتہ چلتا ہے۔
آٹھ سو بارہ عیسوی میں دین اسلام کو اتنا استحکام نصیب ہو گیا تھا کہ ٹیکسلا کے ترک شاہیہ حکمران مشرف بہ اسلام ہو گئے، آغا عبد الغفور اپنی کتاب ۔۔۔۔ تیکسلا کے تہذیبی پس منظر میں بلاذ۵ری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ ٹیکسلا کے عسفیان نامی راجہ کا بیٹا بیمار ہو گیا،  مقامی ہندو پجاریوں نے راجہ کو یقین دلایا کہ راجکمار کو کچھ نہیں ہو گا، مگر راجکمار نہ بچ سکا جس پر یہ راجہ اس قدر سیخ پا ہوا کہ اس نے مندر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور تمام پجاریوں کو قتل کروا ڈالا، اسے دین اسلام کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات تھیں اور یہ بھی اسے بتا دیا گیا کہ ۔۔۔۔۔ اس مذہب کو ماننے والے موت اور زندگی کو من جانب اللہ سمجھتے ہیں ۔۔۔۔ اس پر اس نے اپنا سفیر تحفے تحائف کے ساتھ بغداد میں عباسی خلیفہ مامون الرشید کے دربار میں بھیجا او درخواست کی کہ علمائے کرام کو ٹیکسلا بھیجا جائے، اس کی اس درخواست پر شیخ محمد بن علی حسن السعدؒ کو ٹیکسلا بھجیا گیا، ان کے ہاتھ پر راجہ عیسفان نے اسلام قبول کیا، شیخ نے یہاں پہلے سے موجود مسجد میں توسیع کروائی اور ایک مدرسہ بھی قائم کیا جو آج کل ۔۔۔۔ مدرسہ ربانیہ ۔۔۔۔۔ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہاں سے ہی ایک نئی کہانی شروع ہوتی ہے جس کا تعلق سرکل بکوٹ اور مری ہلز سے ہے۔
عہد قدیم میں ٹیکسلا کو تین راستے مری اور سرکل بکوٹ سے ملاتے تھے، پہلا راستہ اولڈ کوہالہ سے بکوٹ، ٹھنڈیانی سے نتھیا گلی اور لورہ سے ہوتا ہوا ٹیکسلا پہنچتا تھا، نتھیاگلی کا نام ناتھ سے ماخوذ ہے جو بدھ اور ہندو مژہب میں پیر کو کہتے ہیں، بعض یہاں سے ٹیکسلا جانے کے بجائے موش پوری پر جاتے تھے جہاں آج بھی شیو مندر کے آثار موجود ہیں، موشپوری کے بارے میں بھی مختلف نظریات یئں، ایک یہ کہ اس کا لفظ موکش سے نکلا ہے اور اس کے معنی نجات کے ہیں، مندر میں اس زمانے میں یاتری اپنے پاپ بخشوانے ہی جایا کرتے تھے، دوسرا خیال یہ ہے کہ اس کا نام موج پور تھا جو ڈھونڈ عباسی سردار موج خان کے نام سے منسوب ہے، آج بھی موشپوری کی یہ چوٹی موجوال خاندان کی ملکیت ہے ۔۔۔۔۔ بہر حال دوسرا راستہ کھودر، دیول، ملکوٹ، تھوبہ (باڑیاں)، لورہ اور ٹیکسلا کا تھا، تیسرا راستہ ٹائیں، نیلور، گجنی پورہ(موجودہ راولپنڈی) اور ٹیکسلا کا تھا، ٹیکسلا میں اسلام آنے کے بعد جب یہاں ایک مدرسہ قائم ہوا تو اس نے قدیم بدھا یونیورسٹی کا خلا پر کیا اور ہندوستان بھر سے لوگ انہی مذکورہ راستوں سے ٹیکسلا آنے لگے، اگر قدیم بدھا یونیورسٹی میں پانانی، اشوک، چندر گپت اور اسی طرح کے دیگر لوگوں نے تعلیم حاصل کر کے ٹیکسلا کی عظمت کو چار چاند لگائے تو آٹھویں صدی میں قائم ہونے والے اس مدرسہ کے علما سے تعلیم حاصل کرنے والوں میں حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہ کے صاحبزادے مولانا عبدالرحیم، مولانا انور شاہ کشمیری، حضرت پیر مہر علی شاہؒ، مولانا غلام رسول ہزاروی، حضرت مولانا پیر فقیراللہ بکوٹیؒ، بانی جامعہ اشرفیہ لاہور مولانا مفتی محمد احسنؒ، مولانا غوث ہزارویؒ اور دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار کے بانی مولانا غلام اللہ خانؒ جیسی ہستیاں شامل ہیں، یہ مدرسہ ٹیکسلا چوک سے حطار جانے والی روڈ پر دریائے ہرو کے پل کو عبور کرتے ہی مغرب کی جانب جانے والی ایک لنک روڈ پر تیس ہزار کی آبادی والے قصبہ بھوہی گاڑھ میں وقع ہے، یہ علاقہ ضلع اٹک تحصیل حسن ابدال کا حصہ ہے، یہاں کے ایم این اے زین الٰہی جبکہ ایم پی اے شاہویز خان ہیں، علاقے میں راجپوت گجر، اعوان، گکھڑ، کڑرال، جدون مغل اور سید آباد ہیں، سرکل بکوٹ سے اس علاقے کا علمی رشتہ حضرت مولانا پیر فقیراللہ بکوٹی کی تعلیم سے استوار ہوا اور یقیناٍ اس وقت اور لوگوں نے بھی اس سے استفادہ کیا ہو گا جس میں سنگل کے پیر بکوٹی کے ہم رصر مولانا فقیراللہ سنگلوی بھی شامل ہیں، اس قصبے میں ایک لائبریری بھی ہے جسے راجہ نور محمد نظامی چلاتے ہیں، ان کے دعویٰ کے مطابق لائبریری میں تیرہ ہزار کتابیں موجود ہیں جن میں برصغیر پاک و ہند، پنجاب کے شہروں، ہزارہ کے قبائل سمیت پندرہ دیگر عنوانات کی قدیم کتابیں موجود ہیں جن میں حضرت پیر بکوٹی کا خطبہ جمعہ سے متعلق کتاب کا قلمی نسخہ بھی موجود ہے، وہاں پر میں نے ہزارہ کے اعوانوں سمیت اکثر تمام قبائل کی تاریخ سے متعلق کتابیں دیکھی ہیں مگر مجھے نور الٰہی عباسی مرحوم کی تاریخ مری اور نعیم عباسی کی جنت سے عروج عباسیہ تک کی کتب نذر نہیں آئیں، نظامی صاحب کا کہنا تھا کہ ان کی لائبریری میں ہر روز درجنوں سکالز ملک بھر سے آتے ہیں اور اپنی علمی پیاس بھجاتے ہیں ۔ ان کے پاس تین سو سے زائد قدیم کتابوں کے قلمی نسخے بھی موجود ہیں، سکالرز اور علاقائی تاریخ کے سکالرز اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ 

Thursday 14 July 2016

تیرہ جولائی ۔۔۔۔۔۔ داستان سرکل بکوٹ کے سرفروشوں کی
**************************
سرکل بکوٹ کے جہاد کشمیر میں پہلے شہید عبدالرحمان علوی
 پیر بکوٹیؒ کے سوتیلے بیٹے تھے
پیغمبر انسانیت نے خواب میں عبدالرحمان علوی اور ان کے بھائی کا ہاتھ پیر بکوٹی کے ہاتھ میں دیا تھا
انگریز حکومت کو مالی نقصان پہنچانے کیلئے انہوں نے بیروٹ خورد کی ایک غار میں جعلی ٹیکسال لگا لی تھی
عبدالرحمان علوی نے سرکل بکوٹ مجاہدین کا ایک گروپ بھی بنایا جو تحریک آزادی کشمیر کیلئے فنڈز اور دیگر وسائل کی فراہم کرتا تھا
سری نگر میں مہاراجہ کے محل کے سامنے حیّ علی الصلاة کہا ہی تھا کہ ایک گولی ان کے سینے میں بھی پیوست ہو گئی
ایک طرف عبدالرحمان علوی شہادت کا رتبہ پا گئے دوسری طرف پیر بکوٹی کا دل دکھانے پرکی دنیا بھی اجڑ گئی
***************************

تحقیق و تحریر: محمد عبیداللہ علوی
*************************
اگر آپ بیروٹ جائیں تو ۔۔۔۔۔ اکھوڑاں بازار میں سید احمد شہید اکیڈیمی سے ملحق راستہ سے نیچے چلتے جائیں تو ۔۔۔۔۔ اگے ایک مسجد اور قدیم قبرستان آئے گا، اس کے پہلو سے مزید نیچے اتریں تو ۔۔۔۔۔ نیچھے ڈھلوان میں ایک مسجد دائیں طرف موجود ہے، یہ جامع مسجد کھوہاس کہلاتی ہے، اسے علوی اعوانوں کے جد امجد حضرت مولانا میاں نیک محمد علوی نے اٹھارہ سو اڑتیس میں مقامی کاملال ڈھونڈ عباسی قبیلہ کی دعوت پر بیروٹ آنے کے بعد اسی قبیلہ کی اعانت سے تعمیر کیا جہاں آج بھی پنجگانہ نماز کے علاوہ انیس سو سات سے نماز جمعہ کی باقاعدہ ادائیگی بھی ہو رہی ہے، اسی مسجد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں مجدد کوہسار حضرت میاں فقیراللہ بکوٹی نے بکوٹ ہجرت سے قبل پانچ سال تک امامت اور خطابت کی اور اپنے خطبات سے اہلیان بیروٹ کے دلوں کو گرمایا شاید اسی تبلیغ اسلام کا اثر تھا کہ اہلیان بیروٹ بالخصوص کاملال ڈھونڈ عباسی برادری نے انہیں سترہ کنال اراضی بھی ہبہ کی، انہوں نے یہاں علوی اعوانوں کے قبیلہ کی ایک بیوہ خاتون ستر جان سے عقد بھی کیا جن میں سے ایک بیٹی راحت نور بھی متولد ہوئی اور وہ پوٹھہ شریف کے منہاس خاندان میں بیاہی گئی، اس دختر پیر بکوٹی کا مزار پوٹھہ شریف میں حضرت پیر ملک سراج خان کی جامع مسجد کے سائے میں ہے۔ اسی مسجد کی بائیں جانب ایک اور قدیم قبرستان ہے جہاں اسی علوی اعوان اور کاملال ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے بزرگ بھی ابدی نیند سو رہے ہیں۔
تھوڑا اور آگے جائیں تو نشیب میں ایک برسوں سے اجڑے گھر کی اداس دیواریں نظر آئیں گی، یہ علوی اعوان برادری کا ابتدائی گھر ہے، حضرت مولانا میاں نیک محمد علوی کی فیملی کیلئے انہی کاملال عباسیوں نے تعمیر کر کے دیا تھا، اسی گھر کو انیس سو ایک سے سات تک حضرت میں پیر فقیراللہ بکوٹی نے اپنا گھر اور آستانہ بھی بنایا تھا، اسی گھر میں سرینگر میں سرکل بکوٹ کے پہلے مجاہد اور شہید حضرت مولانا میاں عبدالرحمان علوی نے بھی جنم لیا تھا ۔۔۔۔۔ جو حضرت پیر بکوٹی کا سوتیلا بیٹا تھا ۔۔۔۔۔ ہوا یوں کہ ۔۔۔۔۔۔ حضرت بکوٹی نے جب بیروٹ میں ورود کیا تو بیروٹ کی پہلی بگلوٹیاں کی مسجد کے ٹرسٹیوں نے انہیں امامت اور خطابت کی پیش کش کی حالانکہ وہاں میاں جیون شاہ کے پوتے اور میاں فضل حسین شاہ کے والد میاں محمد حسین شاہ بھی امام تھے تاہم انہوں نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا، پیر بکوٹی نے یہاں امامت کے علاوہ ایک لنگر بھی جاری کیا جہاں مسافروں سمیت علاقہ کے غریب عوام بھی پیٹ بھرنے لگے لیکن ایک رات ۔۔۔۔۔۔ پیر بکوٹی گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ ۔۔۔۔۔۔ خواب میں پیغمبر انسانیت کا دیدار ہوا، اپ نے فرمایا کہ ۔۔۔۔۔۔ دو یتیم بچے تمہارے لنگر سے بھوکے پیاسے واپس جا رہے، ان کا خیال کرو ۔۔۔۔۔ پیر بکوٹی کانپ کر اُٹھ کر بیٹھ گئے ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ لنگر انتظامیہ سے دریافت کیا کہ وہ کون سے بچے ہیں جو اس لنگر سے بھوکے پیاسے واپس جا رہے ہیں، پھر فرمایا کہ کوئی بھی بچہ بغیر کھائے پئے واپس نہ جائے، اگلی رات پھر دیدار مصطفیٰ ﷺْ ہوا، آپ نے پھر فرمایا ۔۔۔۔۔ دو یتیم بچے پھر بھوکے پیاسے گھر واپس چلے گئے ہیں، ان کا خیال کرو ۔۔۔۔۔ اس روز بھی پیر بکوٹی کی کیفیت کافی متغیر ہوئی ۔۔۔۔۔ آپ خود لنگر پر بیٹھ گئے، تمام لوگوں سمیت بچوں کو خصوصی طور پر خیال رکھا اور خود بھی بعض بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا اور مطمئن ہو گئے کہ ارشاد رسول کی بجا آوری میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔ مگر رات کے پچھلے پہر تیسری بار دیدار رسول ہوا ۔۔۔۔۔ آپ کا چہرہ متغیر تھا، آپ ﷺْ نے دو بچوں کی انگلیاں پکڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ آپ نے فرمایا کہ ۔۔۔۔۔ میاں فقیراللہ ۔۔۔۔۔ یہ یتیم بچے ۔۔۔۔۔ تمہارے لنگر سے بھوکے پیاسے واپس گھر جا رہے ہیں، ان کا خیال کرو ۔۔۔۔۔ پیر بکوٹی بیدار ہوتے ہی ۔۔۔۔۔۔ اپنے لنگر کی اس جگہ پر بیٹھ گئے جہاں سے لوگ اندر آ رہے تھے ۔۔۔۔۔ آپ کانپ رہے تھے اور نگاہیں ان بچوں کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔۔۔۔۔ آپ نے دیکھا ۔۔۔۔۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ان دونوں نحیف و نزار بچوں کو دیگر بچے دھکے دے کر پیچھے کی جانب دھکیل رہے تھے ۔۔۔۔۔ آپ یہ منظر دیکھ کر مزید کانپ گئے ۔۔۔۔۔ اور لپک کر ان دونوں بچوں کو اپنے ساتھ چمٹا لیا ۔۔۔۔۔ پہلے ان بچوں کو ہاتھ منہ دھلایا اور پھر انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانے لگے ۔۔۔۔۔ راقم کی خاندانی روایات کے مطابق ۔۔۔۔۔ پیر بکوٹی نے ان بچوں کیلئے نئے کپڑے بھی منگوائے اور ان کو پیار کرتے ہوئے ان کے ساتھ ان کے گھر بھی تشریف لے گئے اور ان کی والدہ کی خیریت ہی دریافت نہیں کی بلکہ ان بچوں کی والدہ سے کہا کہ اس خاندان کی کفالت انہی کے ذمہ ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ بچے بیروٹ میں علوی اعوانوں کے جد امجد حضرت مولانا میاں نیک محمد علوی کے پڑ پوتے اور میاں اکبر دین علوی کے صاحبزادے مولانا میں محمد زمان علوی کے بیٹے مولانا میاں عبدالرحمان علوی اور سرکل بکوٹ کی پہلی پی ایچ ڈی اور ماسیٹ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ ہارون کے دادا مولانا میاں محمدعلی علوی تھے ۔۔۔۔۔!
وقت گزرتا رہا ۔۔۔۔۔ دونوں لڑکے بن گئے، انہی کی وساطت سے حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی کے ان کے ماموں مولانا میاں عبدالعزیز علوی سے پیر بکوٹی سے مراسم بنھی  استوار ہوئے اور پھر طویل علمی و دینی محافل بھی شروع ہو گئیں، مولانا میاں عبدالعزیزعلوی مولانا میاں نیک محمد علوی کے بڑے صاحبزادے اور اپنے عہد کے جید عالم دین بھی تھے، ان کے تجیر علمی نے بھی پیر بکوٹی کو بہت متاثر کیا اور آخر کار پیر بکوٹی نے انہیں اپنی فرزندگی میں لینے کی درخواست کی اور مزید کہا کہ ۔۔۔۔۔ وہ ان کی بیوہ بیٹی اور ان کے یتیم بچوں کو باپ کا بھی بھر پور پیار اور شفقت دینے کی کوشش کریں گے ۔۔۔۔۔۔ مولانا میاں عبدالعزیز علوی نے اپنے دیگر بھائیوں سے مشورہ کیا اور پیر بکوٹی کی درخواست قبول کر لی اور اپنی جگہ کھوہاس کی مسجد کی امامت بھی پیش کر دی، اس طرح حضرت پیر بکوٹی بگلوٹیاں سے کھوہاس منتقل ہو گئے اور لنگر کے علاوہ یہاں پر ہی روحانی محافل بھی شروع ہو گئیں، پیر بکوٹی کا عقد مولانا میاں عبدالعزیز علوی کی بیٹی ستر جان سے ہوا اور یہ مثالی جوڑا بیروٹ کی ڈھوک کھوہاس میں تمام تر روحانی فیوض و برکات کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرنے لگا ۔۔۔۔۔ اس وقت پیر بکوٹی یتیم بچوں عبدالرحمان علوی، محمد علی علوی کے علاوہ عبدالرحیم علوی، عبدالطیف علوی، محمد یعقعوب علوی اور محمد ایوب علوی اور ان کی اکلوتی ہمشیرہ زلیخا کے سوتیلے والد بھی بن گئے۔
عبدالرحمان علوی کڑیل جوان تھے، پیر بکوٹی کی محافل بھی کھوہاس بیروٹ میں عروج پر تھیں، وہ اونچی جگہ بیٹھ کر شہادت کی انگلی سے کنکر پیر بکوٹی کو مارتے جو کبھی انہیں لگتے اور کبھی کبھی ان کی محفل میں بیٹھے لوگوں کو، اس محفل کا مزا کرکرا ہو جاتا، پیر بکوٹی رات کو عبدالرحمان علوی کو سمجھانے اپنے پاس بلاتے اور عبدالرحمان علوی پر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا، اس کی شرارتٰیں بدستور جاری رہیں، ایک روز زچ ہو کر پیر بکوٹی نے غصے میں کہا کہ ۔۔۔۔۔۔ نکیا، می تنگ نہ کر، تہرتی پیر نہ لگسی اے ۔۔۔۔۔۔ اس کے جواب میں ہاتھ کا پنجہ لہراتے ہوئے عبدالرحمان علوی بولا ۔۔۔۔۔ تہرتی ر نہ سہی، اُپریں اُپریں ژے سہی ۔۔۔۔۔۔ اگلے سال پیر بکوٹی للال شریف ہجرت کر گئے ۔۔۔۔۔ عبدالرحمان علوی نے دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کی، بہترین خطاطی سیکھی جو اس وقت کے اشٹام پیپرز بھی دیکھی جا سکتی ہے، انہوں نے اس وقت کے حالات کے مطابق انگریز حکومت کے خلاف نوجوانوں کا ایک گروپ بھی بنایا اور بکوٹ پولیس کو تنگ کرنے لگے، ایس ایچ او یا دیگر پولیس اہلکاروں کو دیکھتے ہی یہ گروپ غلیل سے انہیں پتھر مار کر زخمی کر دیتا، انیس سو ستائیس میں انہوں نے انگریز حکومت کا مالی نقصان پہنچانے کیلئے بیروٹ خورد کی ماخیر لینڈ سلائیڈ کی ایک غار میں جعلی ٹیکسال لگا لی اور اپنے بیروٹ کے ایک دوست پیر خان کے ساتھ مل کر جعلی سکے ڈھالنے لگے، یہ سکے بازار میں پہنچے تو ایک بھونچال آ گیا، ان کے ایک سگے ماموں مولانا میاں محمد جی علوی اس وقت برٹش انٹیلیجنس میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، مقامی نمبردار محمد فیروز خان سمیت مولانا میاں محمد جی علوی کو بھی عبدالرحمان علوی اور پیر خان کی ان غیرقانونی سرگرمیوں کا علم تھا مگر ان دونوں حضرات نے کبھی بھی انگریز کے خلاف اس غیر قانونی دھندے کی حکومت کو اطلاع دی نہ ان کو اس کام سے روکا ۔۔۔۔ کیونکہ اس وقت کی غاصب انگریز حکومت کے خلاف یہ غیر قانونی کام نہیں بلکہ اپنی نوعیت کا ایک جہاد ہی تھا۔
مولانا عبدالرحمان علوی نے سرکل بکوٹ میں انیس سو چوبیس میں مجاہدین کا ایک گروپ بھی بنایا جو تحریک آزادی کشمیر کیلئے فنڈز اور دیگر وسائل کی فراہمی کا ذمہ دار تھا، اس کے سربراہ وہ خود تھے اور نائب کی حیثیت سے نوجوان پیر خان ان کے دست راست تھے، سرکل بکوٹ بالخصوص بیروٹ کے بااثر لوگوں کی اخلاقی اور مالی امداد بھی انہیں  حاصل تھی، بیروٹ میں راجہ نذر خان، سردار ولی احمد خان، سردار رستم خان، نمبردار محمد فیروز خان، نذر محمد خان، محمود شاہ، غلام نبی شاہ، ٹھیکیدار محمد امین خان، سردار یعقوب خان، مولانا میر جی علوی، مولانا محمد جی علوی، مولوی غازی اعوان علوی اور بہت سے دیگر لوگوں کی حمایت اور مدد بھی انہیں حاصل تھی، بیروٹ کے ٹرانسپورٹرز ان کی طرف سے فراہم کردہ اسلحہ بسوں کے خفیہ خانوں میں بارہ مولا پہنچاتے جہاں سے کشمیر بھر میں پھیلے مجاہدین کو سپلائی کیا جاتا اس کے علاوہ نقد رقوم بھی یہ ٹرانسپورٹر مجاہدین تک پہنچاتے، انیس سو ستائیس کو مولانا عبدالرحمان علوی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے مگر تمام تر کوششوں کے باوجود بکوٹ پولیس کو وہ ہاتھ نہ آتے تھے، در اصل انہیں بیروٹ اور باسیاں کے پولیس مخبر پولیس چھاپے سے پہلے ہی آگاہ کر دیتے تھے اور وہ اپنا ٹھکانہ بدل لیتے تھے، تاہم انیس سو انتیس میں پولیس تقریباً ان کے سر پر پہنچ گئی، پیر خان تو موجود نہیں تھے،پولیس چھاپے کی اطلاع پر ایک گھنٹہ پہلے وہ ماخیر لینڈ سلائیڈ کے غار سے باہر نکلے، چنجل کے مقام پر پولیس پارٹی سے ملاقات ہوئی، وہ سفید رنگ کے کپڑے اور سفید پگڑی پہنے ہوئے تھے، پولیس نے انہی سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے غار کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا کہ وہ غیر میں بیٹھا حکومت مخالف دھندے میں مشغول ہے، جلدی جائیں کہیں وہ بھاگ نہ جائے ۔۔۔۔۔۔ پولیس وہاں پہنچی تو کوئی نہیں تھا، ادھر مولانا عبدالرحمان علوی اپنے گھر کھوہاس بیروٹ آئے، والدہ، اہلیہ اور اپنے بھائیوں اور بچوں سے آخری ملاقات کی اور دریائے جہلم کو بانڈی بیروٹ سے عبور کر کے کشمیر میں داخل ہو گئے، ساہلیاں میں ان کے ایک بہنوئی رہتے تھے، وہ وہاں ہی قیام پذیر ہوئے اور انہی کے ذریعے مجاہدین سے رابطے شروع کر دئے، راقم کی فیملی روایات کے مطابق چمبیاٹی کے سردار محمد ایوب خان نے انہیں پونچھ سے سری نگر پہنچنے میں ہر طرح کا تعاون کیا، سری نگر پہنچتے ہی انہوں نے مجاہدین کیمپ کو جوائن کیا، ملٹری چھاپہ مار کارروائیوں کی ٹریننگ حاصل کی، اسی دوران آٹھ جولائی انیس سو اکتیس کو ڈوگرہ فوجیوں کے ہاتھوں سری نگر میں توہین قرآن کا واقعہ ہوا جس کے خلاف کشمیر بھر میں آگ لگ گئی اور پر تشدد ہنگامے شروع ہو گئے، اس موقع پر خانقاہ معلیٰ سرینگر میں نصف لاکھ کشمیری مسلمانوں کا جلسہ عام ہوا جس میں مقررین خصوصاً عبدالقدیر نامی نوجوان نے ایسی دردناک تقریر کی کہ مسلمان ۔۔۔۔۔ اب یا کبھی نہیں ۔۔۔۔۔ کا نعرہ لگا کر مہاراجہ ہری سنگھ کے محل کی طرف بڑھنے لگے، یہ تیرہ جولائی اور جمعہ کا دن تھا، نماز جمعہ کی ادائیگی کا وقت بھی آن پہنچا، مسلمانوں نے اذان دینے کیئے اللہ اکبر کی تکبیر بلند کی کہ ۔۔۔۔۔ تڑاخ سے ڈوگرہ فوجی کی گولی موذن کے سینے میں پیوست ہو گئی، دوسرا نمازی آگے بڑھا ور اس نے دوسری تکبیر کہی تو وہ بھی جام شہادت نوش کر گیا۔ مولانا عبدالرحمان علوی بھی آگے بڑھے اور انہوں نے ازان کی تکبیر میں حیّ علی الصلاة کہا ہی تھا کہ ایک اور گولی ان کے سینے میں بھی پیوست ہو گئی، سرکل بکوٹ کا یہ پہلا جوان جہاد آزادی کشمیر کی شاہراہ پر قافلہ شہدائے کشمیر کے ہمراہ باغ بہشت کی جانب رواں دواں ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔ چشم فلک نے ان شہدا کا کشمیر میں اس سے پہلے اتنا بڑا جنازہ کبھی نہ دیکھا تھا، نماز جنازہ کے بعد ان شہدا کے جسد خاکی کو سوپور لایا گیا جہاں ان کی تدفین مکمل ہوئی، آج وہاں ان شہدا کے مقبرے موجود ہیں اور وہاں ہر سال عرس ہوتا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ
مولانا عبدالرحمان علوی کی لمیاں لڑاں بیروٹ کے ممتاز عالم دین مولانا میاں سلطان محمد علوی کی ہمشیرہ صاحب نشاں سے شادی ہو گئی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں تین بیٹے عطا فرمائے، سب سے بڑے صاحبزادے فیض عالم علوی، دوسرے محمد اعظم علوی اور تیسرے غلام ربانی علوی تھے۔ فیض عالم علوی کی اہلیہ منہاسہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھتی تھیں، ان سے ان کی ایک دختر خاتم جان متولد ہوئی جو لمیاں لڑاں بیروٹ کے ہی علوی اعوان قبیلہ کی بہو بنی اور سہراب اعوان کی زوجیت میں آئیں، دوبرس قبل ہی ان کا انتقال ہوا ہے، فیض عالم علوی کے دو نواسے گل عناب اعوان اور افتخار اعوان اور دو نواسیاں ہیں، ان کے دوسرے بیٹے محمد اعظم علوی ہندوستان گئے تو پھر ان کا آج تک کوئی اتا پتہ نہ مل سکا، تیسرے بیٹے غلام ربانی علوی تھے جن کا پے در پے صدمے سہتے سہتے ذہنی توازن خراب ہو گیا، اور وہ ڈھیری شمالی بیروٹ میں صوفی محمد نبی خان مرحوم کے گھر میں رہنے لگے اور وہیں انتقال ہوا ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اہلیان سانٹھی بیروٹ کو اپنی درجنوں کنال اراضی بھی فروخت کر ڈالی جس کی رقوم ان کے چچا مولوی ایوب علوی، ڈاکٹر مسعود علوی اور سہراب اعوان کی اہلیہ اور فیض عالم علوی کی بیٹی خاتم جان نے وصول کیں، آج اس دنیا میں مولانا عبدالرحمان علوی کی کوئی اولاد نہیں ہے نہ ہی اہلیان سرکل بکوٹ کو ہی اس عظیم مجاہد اور شہید کے بارے میں ہی کوئی علم ہے ۔۔۔۔۔ بات پھر وہیں آ پہنچتی ہے کہ ۔۔۔۔۔ ایک جانب قدرت نے ان سے تحریک آزادی کشمیر میں کام لیکر انہیں شہید کے درجے پر فائز کرنا تھا اور ان کا بازو پکڑ کر تاجدار انسانیت حضرت محمد مصتفیٰ انہیں کفالت کیلئے حضرت پیر بکوٹی کے سپرد کیا تھا ۔۔۔۔۔ جبکہ ۔۔۔۔۔ دوسری طرف مولانا عبدالرحمان علوی کا اپنے سوتیلے والد اور اپنے عہد کےمجدد حضرت پیر بکوٹی کا دل دکھانے پر ان کا گھر ہی نہیں بلکہ ان کی دنیا بھی اجڑ گئی ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ ان کا کھوہاس بیروٹ میں آبائی گھربھی کھولا (کھنڈر) بنا ہوا نوحہ کناں ہے بلکہ آج ان کا دنیا میں نام لینے والا بھی کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف انہی مولانا عبدالرحمان علوی کے چھوٹے بھائی میاں محمد علی علوی کی اولاد میں ان کی پوی ڈاکٹر طاہرہ ہارون ہے جو سرکل بکوٹ کی ریاضی میں نہ صرف پہلی پی ایچ ڈی ہے بلکہ اعلیٰ تعلیم میں بیروٹ کا ایک معتبر حوالہ بھی ہے، قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے ۔۔۔۔۔ اے اہل بصیرت، ان واقعات سے عبرت پکڑو (سورۃ الحشر، آیت نمبر دو) (ٰیہ آرٹیکل روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد کے 14 جولائی 2016 شمارے میں بھی شائع ہوا ہے)
ریفرنسز اور کتابیات

Wednesday 29 June 2016

کوہسار مری اور سرکل بکوٹ میں جرم و سزا

ماریہ ۔۔۔۔۔  جس کے قتل یا خود کشی کا راز شاید کبھی نہ کھل سکے

**************************

تحقیق و تحریر


محمد عبیداللہ علوی


صحافی، مورخ، بلاگر  

*******************************

ماریہ قتل کیس

******************************** 

کہیں بھی یہ کوئی انہونی بات نہیں ہوتی کہ وہاں جرم نے کیوں جنم لیا، معاشرہ کوئی بھی ہو وہاں اچھے اور برے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔

********************************

(Published in The Express Tribune, August 2nd, 2016)

ISLAMABAD / MURREE: Find the odd one out of the three: Maria Sadaqat, Qandeel Baloch and Samia Shahid? If you think Qandeel was the “odd” one you are wrong. She was just being herself. If you pick Samia for being a relatively unknown name, you are somewhat wrong again. You will know her well as the country she was a national of speaks even louder for her.
All the three had so much in common. They were young women. They were their own persons. And they were killed under unexplained circumstances. Yet there is something that makes Maria Sadaqat the odd one out. The murderers of the latter two won’t escape easily. Everyone is watching and the government is warily alert. Conversely, Maria was an ordinary girl. She was neither a celebrity nor a foreign national. The way her case has been handled so far, there are already signs that true reason and circumstances of her death may never be known, unless a fresh, impartial investigation is conducted into the case. Maria, 19, died of burn injuries at the Pakistan Institute of Medical Sciences (PIMS) on June 1, after struggling for life for almost two days. The police have declared her death a suicide. The court has granted bail to all the suspects whereas a fact-finding mission has raised questions over the investigation while complaining about non-cooperation from the police.
Family claims
On May 30, the day the incident happened, Maria, the eldest of six siblings, was at her home in Dewal village of Murree along with her youngest sister. Her family had gone to condole the death of a relative in a nearby village. Upon being informed of the incident by neighbours, the family rushed home and found Maria with burn injuries. According to them, Maria said five men set her on fire just outside her house at around 11:40am. “She could identify only two of them — Shaukat Mehmood and Mian Arshad”, says Rafaqat, Maria’s uncle. Following the victim’s statement, the Murree police booked Shaukat, his younger brother Riffat Mehmood, and Mian Arshad. Later, the police also arrested Shaukat’s son Haroonur Rasheed.
Police investigation
Meanwhile, a police team headed by DIG Abubakar Khuda Bakhsh took over the investigation on June 16. It declared the death a suicide and the three suspects innocent.
“There is strong evidence that the suspects nominated in the FIR were not present at the place of incident,” the investigation report reads. It also says that the forensic examination did not detect fingerprints of any of the suspects on samples of burnt pieces of clothes or ignitable liquid found from the crime scene. Their polygraph tests were also clear, says the report. A Pims burn centre doctor, who was also interviewed by the investigation team, says Maria did not give any statement. “She was in trauma. Whenever somebody asked her something, she started crying.” The police report also notes that the route the suspects took according to the FIR to reach Maria’s house was impassable considering the terrain and the ages of the suspects. The report also says that Maria was pressured by her family to name specific persons. Dr Ruqayya Rukhsar at the Phagwari Rural Health Centre told the investigation team that when Maria was brought to the centre for first aid, the focus of her family was on the statement rather than treatment. “They forced her to name specific persons. They continued until she uttered the names they wanted,” the report quotes the doctor as saying. However, the family contested this and accused the doctor of destroying the evidence and referring Maria to Rawalpindi district headquarters hospital despite knowing that there was no burn centre at the hospital.
Love tangle
According to the police, Haroon, 27, already engaged with another woman, developed a relationship with Maria when she started teaching at the school run by his father, Shaukat, in March 2014 where he was an administrator. Police said Haroon, also purchased a mobile phone and a SIM card in his name for Maria. Mobile phone record shows that she sent several text messages to Haroon the day before the incident, requesting him to respond to her messages and calls. In the last text she sent at 7:23am on May 30, Maria said you would be responsible for my death if you did not respond to my message today. “Between 01-05-2016 and 30-05-2016, there were 6,248 calls and messages between Maria and Haroon … This shows that the ‘love story’ between the two was the reason behind Maria’s death,” says the police report. Maria’s mother denies her daughter had a relationship or contact with Haroon. “She did not have a mobile phone,” she says. Instead, she says, Shaukat had asked for Maria’s hand for his son which they refused. Shaukat denies this. Police say Haroon had promised Maria to marry her and when he ended the relationship, she was distraught. The police investigation found Haroon indirectly responsible for Maria’s tragic death, or ‘qatl-bis-sabab’ under Section 322 of the Pakistan Penal Code. Circumstances arising out of the criminal negligence on the part of Haroon by emotionally exploiting her to a point of no return compelled Maria to commit suicide, says the report. The report also holds Haroon responsible for Maria’s death as he did not inform the police about her text messages threatening to kill herself. He continued his ‘love affair’ with the girl despite knowing the fact that her marriage to another man has been decided and was going to tie the knot on June 4, says the report. Haroon, on bail, is now in hiding in Rawalpindi and unapproachable.
Loan and litigation
While talking to the suspects, The Express Tribune came to know that Maria’s father owed Rs133,000 to Shaukat. A day before the incident, Shaukat had an exchange of harsh words with Sadaqat at the latter’s auto-shop. There was another dispute between the victim’s family and one of the suspects. Maria’s uncle was booked and arrested for allegedly beating up his wife, who is the sister-in-law of Mian Arshad. This case is still pending in the court.
SCBA committee
The Supreme Court Bar Association (SCBA) constituted a three-member committee comprising its former presidents Asma Jahangir, Kamran Murtaza and Tehmina Muhibullah to investigate the incident. The mission, after visiting the victim’s family and the neighbourhood, in its report notes that the allegation that Maria committed suicide “did not seem to be correct because her entire body was burnt except her hands, feet and face”. The mission says that there was a concerted effort to paint the incident as a suicide. “We have only one version of the story. There are grey areas on both sides. We do not know whether the suspects committed the crime or not but prima facie, it seems the girl did not commit suicide,” says Murtaza accusing police of non-cooperation, as a result of which, the mission says, they could not meet the suspects to get their side of the story. He said they had also not seen the police report.
SCBA has also appointed a lawyer to pursue the case on behalf of the victim’s family. Maria’s father claims police had been bribed to exonerate the suspects. The family also insists the statement Maria recorded and signed at the Phagwari health centre had also vanished.

 یہ یکم جون کی ایک دوپہر تھی، جواں سالہ ماریہ صداقت اپنی چھوٹی معذور بہنکے ساتھ گھر میں موجود تھی، کسی نے گھر کا دروازہ کھٹکٹایا، اس نے اندر سے ہی پوچھا کون ۔۔۔۔۔ ایک شناسا آواز آئی ۔۔۔۔۔ ہم ہیں دروازہ کھولو ۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔۔ آن واحد میں دروازہ کھل گیا ۔۔۔۔  یہ دیکھنے کیلئے سر باہر نکالا تو ایک ہاتھ نے اسے باہر گھسیٹا ۔۔۔۔۔ دوسرے نے مٹی کے تیل کی بوتل اس پر انڈیلی اور اسے آتشیں شعلوں کے حوالے کر دیا گیا، اسے چیختا دیکھ کر انسانی بھیڑئیے ہنستے رہے ۔۔۔۔۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ ماریہ صداقت مر چکی ہے تو اسے گھسیٹ کر ایک کھائی میں گرا دیا، ماریہ صداقت پچاسی فیصد جھلس چکی تھی، ملک کے سب سے بڑے ہسپتال پمز اسلام آباد کے برن یونٹ میں اسے لایا گیا، اس وقت اس کے لواحقین کو بتا دیا گیا کہ وہ بس چند گھنٹوں کی مہمان ہے، اسے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ یہاں ملکی اور غیر ملکی میڈیا بھی آ گیا، پولیس بھی اس کی زندگی کا پہلا اور آخری بیان لینے لگی، ماریہ نے بتایا


اس صفہ اکیڈمی دیول کے پرنسپل ماسٹر شوکت عباسی اور ایک سابق کونسلر میاں ارشد نے آگ لگائی ہے۔


صحافیوں اور پولیس تفتیشی افسر نے پوچھا کہ ۔۔۔۔۔ کیوں


تو ماریہ کے والد نے جواب دیا کہ ۔۔۔۔۔ ماسٹر شوکت اپنے بیٹے ہارون کیلئے میرا رشتہ مانگ رہا تھا جو میرے والد نے نہیں دیا تھا۔


ہارون الرشید ۔۔۔۔۔ جس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود ماریہ کو لارے لپے لگائے اور اس کی موت کا سبب بن گیا

ماریہ نے ہسپتال میں ہی دم توڑ دیا، والدین نے برن یونٹ کے انچارج ڈاکٹر حاشر پر الزام لگا کہ اس نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا اور ان کی جان سے عزیز بیٹی چل بسی ۔۔۔۔۔ ماریہ کا جسد خاکی دیول پہنچ گیا اور رات دس بجے اسے سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس افسوس ناک واقعہ کہ بی بی سی، سی این این سمیت ہر ذریعہ ابلاغ نے کوریج کی، وزیر اعلی شہباز شریف لندن میں تھے، انہوں نے فوراً ملزموں کی گرفتاری اور چوبیس گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا، ملزم مفرور تھے، واقعہ کے تیسرے دن مرکزی ملزم ماسٹر شوکت نے گرفتاری دیدی ۔۔۔۔ ساتھ ہی ایک ویڈیو پیغام بھی دیدیا ۔۔۔۔۔ جس میں ماسٹر شوکت نے قرآن ہاتھ میں لیکر کہا کہ ۔۔۔۔۔۔ وہ اس واقعے میں ملوث نہیں اور وہ رضا کارانہ گرفتاری دے رہا ہے۔


واقعہ کا مرکزی ملزم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماسٹر شوکت، جسے پولیس تحقیقات کے بعد بے گناہ قرار دے دیا گیا


  *********************

روزنامہ جنگ راولپنڈی ۔۔۔۔۔ 30 جون، 2016

اسلام آباد، نیشنل پریس کلب میں متوفی ماریہ کے والد صداقت عباسی گھر کی خواتین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں

اب جبکہ ملزمان ملزم پکڑے جا چکے ہیں، اور ان سے پوچھ گچھ بھی کی جا رہی ہے، بیک ڈور چینل سے ملزموں کے جرگے مقتولہ ماریہ کے والدین پر دبائو بھی ڈال رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر وہ صلح پر راضی ہوتے ہیں تو کیا مقتولہ ماریہ کی دیت ادا کی جائیگی، دکھی والدین فی سبیل اللہ ملزموں کو زندگی کی بھیک دیں گے ۔۔۔۔ یا اس کی نوعیت مختلف ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔؟



عہد قدیم سے کسی بھی معاشرے کے قاتلوں کیلئے مختلف قسم اور نوعیت کی سزائیں ہوا کرتی تھی تھیں، قدیم یورپ میں تو بڑے دردناک طریقے سے آلات کے ذریعے قاتل کو ہلاک کیا جاتا تھا (اس کیلئے دیکھئے یہ لنک) قدیم ہندوستان میں تو یہ سزائیں اور بھیانک تھیں، گنہگار کو جلتے کوئلوں پر اور نوکیلی میخوں پر چلنا پڑتا تھا، دیکھئی یہ لنک) اسی تناظر میں اگر کوئی کوہ مری یا سرکل بکوٹ میں قتل جیسا جرم کر بیٹھتا تو اس کے لئے تین آپشن تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟


اول ۔۔۔۔۔۔۔ قاتل کو مقتول پارٹی کے حوالے کر دیا جائے ۔۔۔۔۔ اس کا جرگہ اس کی تقدیر کا فیصلہ  کرتا ۔۔۔۔۔۔ یہاں بھی دو صورتیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔؟


الف ۔۔۔۔۔۔ فیصلہ کے بعد اس کے دونوں ہاتھ پائوں توڑ کر اور اس کے ساتھ اس کا ہم وزن پتھر باندھ کر اونچی جگہ سے نیچے پھینکا جاتا یا اسے دریا میں غرق کردیا جاتا یا آگ میں زندہ جلا دیا جاتا اور مرنے کے بعد بے گور و کفن ۔۔۔۔۔ ٹوئے ۔۔۔۔۔ میں دبا دیا جاتا۔


ب ۔۔۔۔۔۔ اگر اسے مفید کاموں کے سلسلے میں زندہ رکھنا ہے تو اس کے گلے میں ایک زرد گلو بند باندھ دیا جاتا ۔۔۔۔۔۔ اس گلو بند کو ۔۔۔۔۔ گلانوی ۔۔۔۔۔۔ کہتے تھے جو غلامی کا ہی ایک روپ تھا، اسے محلہ کے اعتبار سے ۔۔۔۔ پانڈی ۔۔۔۔۔۔ بھی کہتے تھے، اس کو حق زندگی دے کر باقی حقوق ضبط کر لئے جاتے تھے ، جیسے اسے خصی کر دیا جاتا تھا، اس کے فرائض یہ تھے کہ وہ ۔۔۔۔۔ پانڈی کی حیثیت سے اس محلہ یا گائوں کے کسی شخص کے سامنے کسی وقت بھی کوئی کام کرنے سے انکار نہیں کر سکتا  تھا، وہ اہل گائوں کا جنم جنم کا غلام بن جاتا تھا اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک یہ یہ ڈیوٹی نبھانا پڑتی تھی، اس کی سماجی حیثیت ۔۔۔۔۔ ہندو مت کے اچھوت ۔۔۔۔۔ شودر سے بھی بد تر تھی، اور اس کیلئے لفظ ۔۔۔۔۔ چنڈال ۔۔۔۔۔۔ بولا جاتا تھا، اسے اور کتے کو ایک ہی برتن ۔۔۔۔۔ جسے ٹٹھ ۔۔۔۔۔۔ کہا جاتا تھا روٹی ڈالی جاتی تھی، اسے اجازت تھی کہ جہاں چاہے سو جائے مگر اسے مویشیوں کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ کوہال میں سونا پڑتا رھا، اسے کسی عید یا کسی کلچرل فیسٹیول میں شرکت کی اجازت نہ تھی اور اگر اس کی خلاف ورزی کرتا تو ۔۔۔۔۔۔ گائوں کی نمایاں جگہ پر اس کی دھنائی کی جاتی ۔۔۔۔۔ مرنے کی صورت میں اسے کسی بھی کھیت کی ۔۔۔۔۔ کلیہا میں بے گور و کفن دبا دیا جاتا تھا۔


دیت کی صورتیں بھی دو طرح کی تھیں


 اسے ۔۔۔۔۔ اوڑہ ۔۔۔۔۔۔ کہتے تھے، پہلی صورت میں اسے مقتول پارٹی کے حق میں اپنے حق جائیداد سے دستبردار ہونا پڑتا تھا ۔۔۔ اس کی ماضی میں مختلف صورتیں رہی ہیں، موہڑہ شریف کے پاس ایک ڈھوک ۔۔۔۔۔ اوڑہ کہلاتی ہے، یہ بھی قتل کی وجہ سے ایک خاندان سے دوسرے خاندان کی ملکیت بنا تھا، اٹھارویں صدی میں یونین کونسل بیروٹ کی ویلیج کونسل باسیاں میں بھی ایک قتل کے سلسلے میں اوڑہ ۔۔۔۔۔ کی صورت میں لیکر موجوالوں کو بکوٹ بے دخل کر دیا گیا تھا ۔۔۔۔۔


دیت کی دوسری صورت ۔۔۔۔۔


 پوہچھن ۔۔۔۔۔ ہوا کرتی تھی، اس میں مقتول پارٹی قاتل پارٹی سے ۔۔۔۔۔ بلا جبرو اکراہ ۔۔۔۔۔ ایک یا ایک سے زیادہ رشتے لیتی تھی خواہ یہ ایک درجن ہی کیوں نہ ہوں ۔۔۔۔۔ مگر رشتہ لے کر لی جانیوالی لڑکی کو وہ تمام حقوق حاصل ہوتے تھے جو ۔۔۔۔۔ آج کی دلہن کو حاصل ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس رشتہ دقاری کا سب سے پسندیدہ پہلو یہ تھا کہ دونوں پارٹیاں دل سے ایک دوسرے کو معاف کر دیتی تھیں اور دونوں خاندان ۔۔۔۔۔ الفت کے ایک رشتہ میں منسلک ہو جاتے تھے،  مگر اس میں قاتل پارٹی کو ٹمن ۔۔۔۔۔ کی رسم میں بڑی آزمائش سے گزرنا پڑتا تھا، انہیں فی آدمی ایک بکرہ کھانا پڑتا تھا، انہیں خالی پیٹ اندھیری راتوں کو کانٹوں سے بھرے ننگے پائوں ہوتر تروپی (ہوتر میں دھان کی کاشت) کرنا پڑتی تھی۔۔۔۔ وغیرہ، اس پوہچھن کی رسم کی صورت میں ۔۔۔۔۔ قاتل پارٹی کو اپنی بیٹی کو جائیداد، مقتول پارٹی کی طرف سے طلب کردہ جہیز اور دیگر گھریلو سامان بھی دینا پڑتا تھا، اور اس میں انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔۔۔۔۔ 


آج بھی ہزارہ اور کشمیرکے بعض مقامات پر ایسی صورتیں نظر آتی ہیں مگر ۔۔۔۔ گلانوی ۔۔۔۔۔ کی رسم ختم ہو چکی ہے، اس عہد جاہلیت میں ایک اور رسم بھی جاری تھی کہ جس لڑکی پر ذرا سا بھی شبہ ہو جاتا تو ۔۔۔۔۔ اسے دہکتے کوئلوں پر چل کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا پڑتی تھی یا اس کی ناک کاٹ اور سر مونڈھ کر عبرت کا نشانہ بنایا جاتا تھا مگر ۔۔۔۔۔ اس دور کے جرگے اصل مرد گنہگار کو بخش دیتے تھے ۔۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔۔ اس بارے میں تاریخ کوہسار خاموش ہے۔


واقعات کا پس منظر


کچھ عرصہ قبل ہم سنا کرتے تھے کہ سٹوپ پھٹ گیا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ نوبیاہتا دلہن جل کر مر گئی، حالانکہ اسی جگہ اس دلہن کا خدائے مجاز اور اس کی ساس بھی موجود تھی مگر انہیں کچھ نہیں ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اہل خانہ اپنی بہو کو خود قتل کر کے بے زبان سٹوپ کے متھے مار دیتے تھے حالانکہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے سٹوپ اہلیان کوہسار کو اس لئے مفت دئے رتھے کہ درختوں اور جنگلات کی کٹائی نہ کریں مگر ذہین لوگوں نے اپنی ناپسندیدہ بہو سے جان چھڑانے کیلئے سٹوپ کا ایک یہ استعمال بھی نکال لیا تھا، کوہسار کی خواتین بڑی با ہمت اور روشن خیال ہیں، تعلیم نے ان میں بردباری اور نئے زمانے کے نئے تقاضوں کو سمجھنے کا سلیقہ بھی عطا کیا ہے پھر بھی ان خواتین اور بچیوں میں خود کشی پر اگر کوئی زور دیتا ہے تو ۔۔۔۔۔۔ سٹوپ ہی پھٹ کر یا اپنے آپ کو آگ لگا کر ہی خود کشی کیوں ۔۔۔۔۔۔۔؟ گہرائی سے سمجھنے والی بات ہے کہ وہ آگ کو گلے لگا کر موت کو کیوں دعوت دے گی جبکہ عہد قدیم سے آج تک کوہسار کی خواتین یا جذباتی بچیوں میں خود کشی کی جتنی وارداتیں ہوئی ہیں اس کا ذمہ دار اسٹوپ کی طرح نشیب میں بہنے والا ظالم دریائے جہلم بھی ہے ۔۔۔۔۔ سال رواں کے  مئی کے پہلے ہفتے میں اپنے ظالم سسر کے ہاتھوں ستائی ہوئی بیروٹ کے مفتی عتیق عباسی کی ہمشیرہ اور ایک بیٹی سمیت تین بچوں کی ماں نے خود کو نیو کوہالہ پل سے اسی دریائے جہلم کے سپرد کیا اور خود غم دوراں سے نجات پا گئی، اسی طرح ایک اندازے کے مطابق یہ دریائے جہلم کم و بیش کوہسار کی پچاس سے زیادہ زندگی سے تنگ خواتین کو ہر سال نگل رہا ہے ۔۔۔۔۔ ایسے میں بیروٹ خورد کی سمیعہ اور دیول کی ماریہ کے سامنے خود سوزی کی دردناک موت کے بجائے دریائے جہلم کے ٹھنڈے ٹھار لہراتے پانیوں میں کودنا زیادہ آسان تھا ۔۔۔۔۔ اس لئے جو لوگ سمیعہ اور ماریہ کی موت کو خود کشی قرار دیتے ہیں پہلے وہ یہ زمینی حقائق بھی پیش نظر رکھیں کہ ۔۔۔۔۔ خود کشی کیلئے کوہسار کی خواتین کا سب سے آسان راستہ دریائے جہلم ہے نہ کہ ۔۔۔۔۔۔ خود سوزی۔
مئی سے تواتر کے ساتھ کوہسار اور گلیات میں لڑکیوں کو جلانے اور بلندی سے گرا کر ہلاک کئے جانے کے جو واقعات سامنے آئے ہیں اس سے ہر با ضمیر شخص ہل کر رہ گیا ہے، گلیات کی وی سی مکول میں نویں جماعت کی طالبہ عمبرین کو مقامی ظالم اور وحشی جرگہ کے جانور نما جرگوئیوں کے حکم پر جس بہیمانہ طریقے سے تشدد کے بعد ایک گاڑی میں باند  کر آتشیں شعلوں کے سپرد کیا گیا ۔۔۔۔۔۔ کہ آسمان کا کلیجہ بھی بنت حوا کی اس بے بس موت پر پھٹ گیا، اس کی دلدوز چیخیں بھی ظالموں کا کچھ نہ بگاڑ سکیں اور اس نے آگ میں تڑپ تڑپ کر موت کو گلے لگایا، آخر کار یہ خبر میڈیا کے پاس پہنچی اور قانون حرکت میں آیا اور ملزمان کا کیس اب انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ہے، اس سانحہ میں سب سے دل ہلانے والا واقعہ یہ ہے کہ عنبرین کی ماں نے سپنی بن کر اپنی کھوکھ سے جنم لینے والی اس بچی کو درندوں کے حوالے کیا۔

مقتولہ عنبرین کا گاڑی سمیت جلا ہوا جسد خاکی

مئی کے آخری ہفتے میں بیروٹ خورد کی ایک غریب خاندان کی کوزہ گلی گلیات میں شادی شدہ لڑکی سمیعہ کو اس کی ساس نے رات کی تاریکی میں پھانسی دیدی اور یہ بات مشہور کر دی کہ سمیعہ ٹی بی کی مریضہ تھی اور اس نے بیماری سے تنگ آ کر مکان سے گر کر خود کشی کر لی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سمیعہ کی ساس کا ایک بھائی ممبر ضلع کونسل ایبٹ آباد ہے اور وہ سمیعہ کی موت کو خود کشی کا رنگ دینے میں پیش پیش ہے اور اس نے متوفیہ سمیعہ کے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی رد و بدل کرایا ہے جبکہ متوفیہ کی والدہ اور دیگر رشتہ دار اس کی از سر نو قبر کشائی کے بعد اس کے پوسٹ مارٹم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بیروٹ خورد کی کوزہ گلی میں بیاہی ہوئی سمیعہ، جسے اس کی ساس نے پھانسی دیدی اور بعد میں اس کی خود کشی کا ڈھونگ رچایا

******************************

 حوالہ جات

منو سمرتی ۔۔۔۔۔ ہندوستانی نظام عدل کا اہم حوالہ


ذات پات کی کہانی اور منو سمرتی کی زبانی



ذات پات کا بانی، منو سمرتی


قدیم ہند میں نظام عدل


ہندوستان کا قانونی نظام، ایک تعارف

قدیم ہند میں عدالتی نظام

دنیا میں قانون کا ارتقا ۔۔۔۔۔۔ تاریخ کے آئینے میں 

قدیم ہند کا سماجی انصاف

آریائی معاشرے کا سماجی نظام 

تاریخ قدیم ہند ۔۔۔۔۔۔ انصاف کے حوالے سے

ہندو مت میں عورت کا مقام 

ہندو مت میں ضابطہ تعزیرات

ماریہ قتل کیس ۔۔۔۔۔۔ فراہمی انصاف میں تاخیر کیوں؟ 

پاکستان میں لڑکیوں کا قتل کیوں؟

مری کے مسلمانوں میں رشتہ داری