Sunday 30 October 2016

The arrival of Islam in Kohsar
خطہ کوہسار سرکل بکوٹ اور کوہ مری گندھارہ تہذیب کا حصہ رہا ہے
سندھ سے بھی پہلے افغانستان کے راستے اسلام کا پیغام ٹیکسلا پہنچ چکا تھا
مسلم صوفیا کا  بھی سرکل بکوٹ کے راستے کشمیر جانے کا پتہ چلتا ہے
ٹیکسلا کے حکمران عسفیان نے خلیفہ مامون الرشید سے استدعا کر کے مسلم علما اپنے دربار میں بلائے، مشرف بہ اسلام ہوا اور یہاں مدرسہ ربانیہ کی بنیاد رکھی
اس مدرسہ سے تعلیم حاصل کرنے والوں میں مجدد الف ثانیؒ، مولانا عبدالرحیم، مولانا انور شاہ کشمیری، حضرت پیر مہر علی شاہؒ، مولانا غلام رسول ہزاروی، حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ جیسی ہستیاں شامل ہیں
بھوئی گاڑھ نامی اس قصبے میں ایک لائبریری بھی ہے جس میں ہزارہ کے قبائل سمیت پندرہ دیگر عنوانات کی قدیم کتابیں موجود ہیں جن میں حضرت پیر بکوٹی کے خطبہ جمعہ سے متعلق کتاب کا قلمی نسخہ بھی موجود ہے
موشپوری کا لفظ موکش سے نکلا ہے اور اس کے معنی نجات کے ہیں ، دوسرا خیال یہ ہے کہ اس کا نام موج پور تھا جو ڈھونڈ عباسی سردار موج خان کے نام سے منسوب ہے
تحقیق و تحریر: محمد عبیداللہ علوی

خطہ کوہسار تاریخی اعتبار سے گندھارہ تہذیب کا حصہ رہا ہے،  اس کا دارالحکومت معروف شہر قدیم ٹیکسلا تھا اور اس حوالے سے دیکھا جائے تو مملکت پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد بھی تیسری بار دارالحکومت بنا ہے، پہلا ٹیکسلا جو پانچ ہزار قبل مسیح سے پانچ سو ستر عیسوی تک، جب سفید ہنوں نے باختر وسطی ایشیا سے طوفان کی طرح آ کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور گندھارا سلطنت کی دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کے نتیجے میں اس شہر علم و ہنر کے باسی گنگا جمنا کے درمیانی دوآبے میں منتقل ہوئے، اس کے بعد جب مسلمان ایک ہزار عیسوی میں محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان آئے تو یہ علاقہ گکھڑوں کے سپرد کیا گیا اور اسلام آباد کے ایوان ہائے اقتدار سے متصل سید پور گائوں دوسری بار پوٹھوہار کا دارالحکومت بنا جبکہ تیسری بار انیس سو ساٹھ میں مملکت پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے اسی جگہ منتقل ہوا تو اس کا نام اسلام آباد رکھا گیا۔
تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ باب الاسلام سندھ سے بھی پہلے افغانستان کے راستے اسلام کا سرمدی پیغام ٹیکسلا پہنچ چکا تھا، آپ نے پہلے بھی میرا ایک آرٹیکل پڑھا تھا کہ صحابی رسول حضرت الوالعاصؓ حیات نبوی یا اس کے تھوڑے عرصہ بعد وسطی ایشیا اور افغانستان کے راستے ٹیکسلا تشریف لائے تھے، ایک مسیحی حواری پال کو تو ہند کے اس شہر بے مثال کی ہوا راس نہ آ سکی اور رام کے پجاریوں نے انہیں قتل کر دیا تھا مگر نبی برحق کے پروانے حضرت ابوالعاصؓ کو یہاں کے راجہ کے ہاں نہ صرف پذیرائی ملی بلکہ آپ نے چھ سو چھتیس عیسوی میں یہاں بر صغیر کی پہلی مسجد بھی قائم کی، دین حق کی تبلیغ اشاعت کیلئے ایک چھوٹی سوی جماعت بھی تشکیل دی اور یہ بات بھی پائیہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ آپ ٹیکسلا سے لورہ، تھوبہ (باڑیاں)، ملکوٹ، دیول اور کھودر سے دریائے جہلم عبور کر کے کشمیر پہنچے، کچھ عرصہ وہاں قیام کیا اور پھر دہلی چلے گئے ۔۔۔۔ ان صحابی رسول کے آمد کے تین عشروں بعد خلیفہ ثالث حضرت عثمانؓ کے عہد میں عبدالرحمان بن شمر نے کابل فتح کیا اور ایک عرب جرنیل مہلب بن سفرہ دریائے سندھ عبور کر کے ٹیکسلا آیا اور یہاں سے وہ ملتان بھی گیا، اس عہد میں مسلم صوفیا کا وسطی ہند اور سرکل بکوٹ کے راستے کشمیر بھی جانے کا پتہ چلتا ہے۔
آٹھ سو بارہ عیسوی میں دین اسلام کو اتنا استحکام نصیب ہو گیا تھا کہ ٹیکسلا کے ترک شاہیہ حکمران مشرف بہ اسلام ہو گئے، آغا عبد الغفور اپنی کتاب ۔۔۔۔ تیکسلا کے تہذیبی پس منظر میں بلاذ۵ری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ ٹیکسلا کے عسفیان نامی راجہ کا بیٹا بیمار ہو گیا،  مقامی ہندو پجاریوں نے راجہ کو یقین دلایا کہ راجکمار کو کچھ نہیں ہو گا، مگر راجکمار نہ بچ سکا جس پر یہ راجہ اس قدر سیخ پا ہوا کہ اس نے مندر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور تمام پجاریوں کو قتل کروا ڈالا، اسے دین اسلام کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات تھیں اور یہ بھی اسے بتا دیا گیا کہ ۔۔۔۔۔ اس مذہب کو ماننے والے موت اور زندگی کو من جانب اللہ سمجھتے ہیں ۔۔۔۔ اس پر اس نے اپنا سفیر تحفے تحائف کے ساتھ بغداد میں عباسی خلیفہ مامون الرشید کے دربار میں بھیجا او درخواست کی کہ علمائے کرام کو ٹیکسلا بھیجا جائے، اس کی اس درخواست پر شیخ محمد بن علی حسن السعدؒ کو ٹیکسلا بھجیا گیا، ان کے ہاتھ پر راجہ عیسفان نے اسلام قبول کیا، شیخ نے یہاں پہلے سے موجود مسجد میں توسیع کروائی اور ایک مدرسہ بھی قائم کیا جو آج کل ۔۔۔۔ مدرسہ ربانیہ ۔۔۔۔۔ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہاں سے ہی ایک نئی کہانی شروع ہوتی ہے جس کا تعلق سرکل بکوٹ اور مری ہلز سے ہے۔
عہد قدیم میں ٹیکسلا کو تین راستے مری اور سرکل بکوٹ سے ملاتے تھے، پہلا راستہ اولڈ کوہالہ سے بکوٹ، ٹھنڈیانی سے نتھیا گلی اور لورہ سے ہوتا ہوا ٹیکسلا پہنچتا تھا، نتھیاگلی کا نام ناتھ سے ماخوذ ہے جو بدھ اور ہندو مژہب میں پیر کو کہتے ہیں، بعض یہاں سے ٹیکسلا جانے کے بجائے موش پوری پر جاتے تھے جہاں آج بھی شیو مندر کے آثار موجود ہیں، موشپوری کے بارے میں بھی مختلف نظریات یئں، ایک یہ کہ اس کا لفظ موکش سے نکلا ہے اور اس کے معنی نجات کے ہیں، مندر میں اس زمانے میں یاتری اپنے پاپ بخشوانے ہی جایا کرتے تھے، دوسرا خیال یہ ہے کہ اس کا نام موج پور تھا جو ڈھونڈ عباسی سردار موج خان کے نام سے منسوب ہے، آج بھی موشپوری کی یہ چوٹی موجوال خاندان کی ملکیت ہے ۔۔۔۔۔ بہر حال دوسرا راستہ کھودر، دیول، ملکوٹ، تھوبہ (باڑیاں)، لورہ اور ٹیکسلا کا تھا، تیسرا راستہ ٹائیں، نیلور، گجنی پورہ(موجودہ راولپنڈی) اور ٹیکسلا کا تھا، ٹیکسلا میں اسلام آنے کے بعد جب یہاں ایک مدرسہ قائم ہوا تو اس نے قدیم بدھا یونیورسٹی کا خلا پر کیا اور ہندوستان بھر سے لوگ انہی مذکورہ راستوں سے ٹیکسلا آنے لگے، اگر قدیم بدھا یونیورسٹی میں پانانی، اشوک، چندر گپت اور اسی طرح کے دیگر لوگوں نے تعلیم حاصل کر کے ٹیکسلا کی عظمت کو چار چاند لگائے تو آٹھویں صدی میں قائم ہونے والے اس مدرسہ کے علما سے تعلیم حاصل کرنے والوں میں حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہ کے صاحبزادے مولانا عبدالرحیم، مولانا انور شاہ کشمیری، حضرت پیر مہر علی شاہؒ، مولانا غلام رسول ہزاروی، حضرت مولانا پیر فقیراللہ بکوٹیؒ، بانی جامعہ اشرفیہ لاہور مولانا مفتی محمد احسنؒ، مولانا غوث ہزارویؒ اور دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار کے بانی مولانا غلام اللہ خانؒ جیسی ہستیاں شامل ہیں، یہ مدرسہ ٹیکسلا چوک سے حطار جانے والی روڈ پر دریائے ہرو کے پل کو عبور کرتے ہی مغرب کی جانب جانے والی ایک لنک روڈ پر تیس ہزار کی آبادی والے قصبہ بھوہی گاڑھ میں وقع ہے، یہ علاقہ ضلع اٹک تحصیل حسن ابدال کا حصہ ہے، یہاں کے ایم این اے زین الٰہی جبکہ ایم پی اے شاہویز خان ہیں، علاقے میں راجپوت گجر، اعوان، گکھڑ، کڑرال، جدون مغل اور سید آباد ہیں، سرکل بکوٹ سے اس علاقے کا علمی رشتہ حضرت مولانا پیر فقیراللہ بکوٹی کی تعلیم سے استوار ہوا اور یقیناٍ اس وقت اور لوگوں نے بھی اس سے استفادہ کیا ہو گا جس میں سنگل کے پیر بکوٹی کے ہم رصر مولانا فقیراللہ سنگلوی بھی شامل ہیں، اس قصبے میں ایک لائبریری بھی ہے جسے راجہ نور محمد نظامی چلاتے ہیں، ان کے دعویٰ کے مطابق لائبریری میں تیرہ ہزار کتابیں موجود ہیں جن میں برصغیر پاک و ہند، پنجاب کے شہروں، ہزارہ کے قبائل سمیت پندرہ دیگر عنوانات کی قدیم کتابیں موجود ہیں جن میں حضرت پیر بکوٹی کا خطبہ جمعہ سے متعلق کتاب کا قلمی نسخہ بھی موجود ہے، وہاں پر میں نے ہزارہ کے اعوانوں سمیت اکثر تمام قبائل کی تاریخ سے متعلق کتابیں دیکھی ہیں مگر مجھے نور الٰہی عباسی مرحوم کی تاریخ مری اور نعیم عباسی کی جنت سے عروج عباسیہ تک کی کتب نذر نہیں آئیں، نظامی صاحب کا کہنا تھا کہ ان کی لائبریری میں ہر روز درجنوں سکالز ملک بھر سے آتے ہیں اور اپنی علمی پیاس بھجاتے ہیں ۔ ان کے پاس تین سو سے زائد قدیم کتابوں کے قلمی نسخے بھی موجود ہیں، سکالرز اور علاقائی تاریخ کے سکالرز اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment