باب اول
تحقیق و تحریر
محمد عبیداللہ علوی بیروٹوی
محمد عبیداللہ علوی بیروٹوی
مورخ، انتھروپولوجسٹ
، بلاگر اور صحافی
فون نمبر
0331-5446020
0
فون نمبر
0331-5446020
0
............اک حرف محرمانہ؟
محمد عبیداللہ علوی
******************************
باب اول
کوہالہ یا باب کشمیر
دریائوں کے کنارے دنیا میں تقریبا ہر ملک
میں شہر آباد ہیں، اسی طرح قدیم وتستا، کشن گنگا اور آج کے دریائے جہلم
کے شرقی اور غربی کنارے کے مری سے بارہ کلو میٹر شمال اور آزاد کشمیر کے
دارالحکومت مظفر آباد کے جنوب میں بیس کلو میٹر کی مسافت پر کوہالہ کا
دوسو سالہ ایک ٹائون آباد ہے جسے رنجیت سنگھ کے تخت لاہور پر سترہ سو
نناوے میں قبضہ کے بعد جب سرکل بکوٹ سمیت مری اور ہزارہ کو بھی اپنی سلطنت
میں شامل کیا تو مقامی قبائل میں شدید بے چینی پیدا ہوئی کیونکہ اس خالصہ
راج نے اس علاقے میں آٹھ صدیوں سے قائم گکھڑ حکومت کا نہ صرف خاتمہ کیا
بلکہ پر سکون اور ترقی یافتہ کوہسار کے زرعی تمدن کو بھی زوال آمادہ کیا،
اٹھارہ سو اکتیس کے سانحہ بالا کوٹ کے بعد تو یہ صورتحال ہو گئی تھی کہ
دریائے کنہار، دریائے جہلم کے کناروں پر مجاہدین نے جام شہادت نوش کر کے
کوہسار کی ایک نئی تاریخ مرتب کر ڈالی جو اہلیان کوہسار کی جرات، شجاعت اور
بے لوث جہاد کی ایک سنہری داستان کی حیثیت رکھتی ہے۔کوہالہ کے نام کی اصلیت
تاریخ و تمدن ہند میں کوہالہ ایک قد یم موسیقار، دیوی، مشروب اور مقامات کا بھی قدیم نام ہے، یہ سنسکرت کے دو الفاظ "کو" اور "ہالہ" کے مجموعہ ہے جس کا مطلب ناقابل فہم زبان ہے،دوسرا معنی ایک روحانی مشروب کا ہے تیسرا ترجمہ موسیقی کا آلہ بھی ہے، انڈولوجی کے ایک سکالر پنڈورانگ وامان کین اپنی کتاب ہسٹری آف سنسکرت پوئیٹک میں کوہالہ کا ویدک مفہوم خوشبو قرار دیتے ہیں، کوہالہ ہندو بچوں کے نام بھی ہوتے ہیں، کوہالہ بوہی ایک طبی پودے کا نام بھی ہے، جبکہ برصغیر پاک و ہند کے علاوہ دنیا میں مختلف مقامات کا نام بھی کوہالہ ہے، زیر بحث کوہالہ باب کشمیر ہے جہاں سے اہل ہند صدیوں سے کشمیر کے راستے ہزارہ اور پنجاب آتے رہے ہیں، اس روٹ پر قرنوں کے سفر اور اختلاط سے ایک نئی زبان ڈھونڈی وجود میں آئی جس کا ستر فیصد اثاثہ یہاں کے قدیم کیٹھوال قبیلہ سے منسوب کیٹھوالی زبان کا ہے، اگر دیکھا جائے تو لفظ کوہالہ ڈھونڈی زبان کے لفظ "کوہال" کی جدید شکل ہے جس کے معنے موجودہ دور میں اسی زبان کے متبادل لفظ میں "سرنی" یا گئو خانہ کے ہیں جہاں مویشی باندھے جاتے ہیں لیکن چونکہ اس کوہالہ سے نشیب میں کنیر پل کے پار گوجر کوہالہ بھی موجود ہے، گوجر برادری برصغیر کی قدیم آریائی قبیلہ کی ایک شاخ ہے اس لئے لفظ کوہالہ کا وہی معانی اور مفہوم قابل قبول ہو گا جو گوجری میں ہو گا، انڈولوجی کے ایک اور سکالر رالف ایل ٹرنر اپنی مرتب کردہ لغت اے کمپیریٹو ڈکشنری آف انڈ و آرین لینگویجز، جلد سوئم کے صفحہ ایک سو تریاسی میں لفظ کومال کی ذیل میں کوھالہ کے معنی نرم، نوجوان اور پیارہ کے بتاتے ہیں، لہذا گوجری کے اس مفہوم سے ایک ہی بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ نیو کوہالہپل کے مشرق میں بشیر خان کے ہوٹل اور پٹرول پمپ والی جگہ قدیم دور میں "فردوس بر روئے زمیں " ہوئی ہو گی، اس کی ایک شہادت دریا کی اس غزرگاہ سے بھی ملتی ہے جو گوجر کوہالہ، کریر پل سے پانچ سو فٹ اوپر دومیل باسیاں اور سامنے متروک اور ویران ریسٹ ہائوس کے پاس ملتی ہے، اگر دریا کا یہ دہانہ اتنا زیادہ وسیع ہوا ہو گا تو یقینا یہ عہد قدیم کا بہت ہی خوبصورت مقام رہا ہو گا۔
کوہالہ کی تاریخی حیثیت
کوہالہ کے معانی، ماخذ اور اس کی اصلیت پر کوئی متفق ہو یا نہ ہو مگر اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ گندھارا تہذیب کے مرکز سلطنت ٹیکسلا اپنے عہد کی وہ سپر پاور تھی جو وسطی ایشیا سے جزائر غرب الہند تک پھیلی ہوئی تھی، یہاں پرہی اڑھائی ہزار سال قبل ادھا یونیورسٹی بھی موجود تھی جو شمالی ہند میں علم و فضل کا سب سے بڑا مرکز تھی اور یہاں پر ہند کا قدیم آئین ساز چانکیہ کوٹلیہ، ماہر لسانیات پانینی جیسے استاد علم کی شمع روشن کئے ہوئے تھے اور ہندوستان بھر سے طلبا اپنی پیاس بجھانے یہاں آتے تھے، بدھا یونیورسٹی کا ایک کیمپس شاردہ آزاد کشمیر میں بھی تھا ، ان دونو کیمپس کو نیو کوہالہ پل کا راستہ آپس میں ملاتا تھا، طلبا اگر ٹیکسلا سے چلتے تو راستہ سری نگر کوہالہ روڈ والا ہی ہوتا تھا جبکہ گوجر کوہالہ اس وقت ایک نیلم پوائنٹ تھا جہاں قیام و طعام کی بہترین سہولیات دستیاب تھیں، طلبا یہاں پر تھکاوٹ اتارنے کے بعد چلتے اور ان کی اگلی منزل کوہ موشپوری کی چوٹی پر موجود ہنو مان جی کا مندر تھا جہاں وہ چند روز ماتھا ٹیکتے اور پھر نتھیا گلی اور کوہالہ بالا کے راستے ٹیکسلا پہنچتے، ٹیکسلا سے آنے والوں کا روٹ بھی یہی ہوتا تھا، بدھا یونیورسٹی کی ایک روایت یہ بھی تھی کہ جو طالب علم فارغ التحصیل ہو جاتا وہ استاد کے پائوں دودھ سے دھو کر وہ دودھ پی لیتا جس کا مطلب یہ ہوتا کہ اس نے علم کا جام اپنے اندر انڈھیل لیا ہے، اڑھائی ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی کوہسار میں ایک محاورہ مقامی زبان میں بولا جاتا ہے کہ پیر توہی توہی پینا۔۔۔۔۔۔۔، در اصل یہ اسی روایت کی ایک نشانی ہے جو کیٹھوالی زبان سے موجودہ ڈھونڈی زبان میں منتقل ہوئی ہے۔
دریائے جہلم کیسے وجود میں آیا۔۔۔۔۔۔؟ اس علمی سوال کا جواب دوہزار پانچ میں اکسفورڈ پریس کے زیر اہتمام کمبرلی ہوسٹن کی کتاب دی ایشئین سائوتھ ایسین ورلڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ سٹوڈنٹس سٹڈی گائیڈ کے باب دوئم کے صفحہ چودہ پر ٹائم لائن کے عنوان سے دیکھی جا سکتی ہے، فاضل مصنف لکھتے ہیں کہ چار لاکھ سال پہلے کشمیر کا یہ علاقہ ایک ارضی واقعہ کے نتیجہ میں ظہور میں آیا جہاں ایک بہت بڑی جھیل بن گئی، دولاکھ سال پہلے یہاں ایک بہت بڑا زلزلہ آیا اس کے نتیجے میں موجودہ دریائے جہلم کی گزر کا پر ایک دراڑ بن گئی اور پانی نے پنجاب کی طرف بہنے کیلئے چلنا شروع کر دیا، دس ہزار سال پہلے پھر ایک زلزلہ آیا اور دریائے جہلم کے ارد گرد بڑے بڑے پہاڑ نمودار ہو گئے، اسی تھیوری پر قیاس کرتے ہوئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی زمانے میں خوفناک زلزلہ آنے سے گوجر کوہالہ کا وجود مٹنے، اڑھائی ہزار سال قبل ہنوں کے ہاتھوں ٹیکسلا کی تباہی کے بعد کوہالہ کا یہ روٹ بھی متروک ہو گیا ہو گا یا اس کی جگی موجودہ کوہالہ آباد کیا گیا ہو گا، زلزلے آج بھی آتے ہیں اور دوہزار پانچ کے بڑے اور آخری زلزلہ نے تو کوہسار کا رنگ ہی بدل دیا ہے۔
کوہالہ کی تجارتی حیثیت
کوہالہ یو تو صدیوں سے ایک گزرگاہ کے طور پر جانا جاتا ہے، دیکھا جائے تو کشمیر کی پنجاب سے تجارت کوہالہ کی ہی مرہون منت رہی ہے، اسے حقیقی تجارتی حیثیت اٹھارہویں صدی کے وسط میں اس وقت ملی جب بنجاب سے گکھڑ اقتدار ختم ہوا اور مری اور سرکل بکوٹ سمیت تمام کوہسار دربار لاہور کی جھولی میں آ گرا، 1767 میں راولپنڈی جو محض گجنی پورا کے نام سے ایک قصبہ کے طور پر جانا جاتا تھا یا سید پور اور جھنڈا چیچی میں گکھڑ حکمرانوں کے چند محلات تھے یہاں پر سکھ حکمران ملکا سنگھ نے قبضہ کے بعد موجودہ شیخ رشید کی لال حویلی کے مقام پر ایک قلعہ بنایا، نرنکاری بازار میں چند دککانیں بنیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے راجہ بازار کی شکل اختیار کر لی، شمال میں پتن کے مقام پر کچھ دکانیں تو تھیں مگر ملکا سنگھ نے راجہ بازار کی تجارت کو کشمیر تک وسعت دینے کیلئے دیول اور موجودہ اہلڈ کوہالہ بازار کو ایک تجارتی منڈی میں تبدیل کرنے کی بنیاد ڈالی، پنجاب سے ہندو ساہو کاروں کو وہاں لا بسایا، مقامی لوگوں کو بیدخل کر کے ان کی اراضی ان کے نام کی گئی اور پھر مقامی لوگوں کو زراعت، تجارت وغیرہ سے بھی فارغ کر دیا گیا اور ان سے بیگار لی جانے لگی، راولپنڈی سے سامان تجارت پہلے دیول آتا تھا، یہاں سے ڈیمانڈ کے مطابق کھودر کے راستے ضلع باغ اور کوہالہ بھیجا جاتا تھا، اسی عہد میں کوہالہ میں تہہ در تہہ دکانیں اور کوٹھیاں بھی بنیں، یہ ہندو ساہو کار مقامی لوگوں سے اون پون غلہ خریدتے اور پھر انہیں ہی تین گنا قیمت پر واپس بیچتے، ان مجبور لوگوں کو بھری سود پر ان کی غمی خوشی پر قرضے دئے جاتے اور پھر انہیں گہنوں اور جائیداد سے محروم کر دیا جاتا، جس کے پاس لوٹانے کیلئے کچھ نہ ہوتا اس کا سر منڈوا کر سر پر اخروٹ رکھ کر اوپر مٹی سے بھری پرات گھمائی جاتی جس کی وجہ سے اس کے سر کی ہڈی ٹوٹ جاتی اور قرخ دار مر بھی جاتا، یہ خوفناک اور دردناک سلسلہ 1768میں کوہالہ بازار کے قیام سے 1848میں انگریزوں کی آمد تک جاری رہا۔
انگریزوں نے کشمیر کی تجارت میں تیزی لانے کیلئے کوہالہ میں 1871 کو معلق پل بنایا جو 1893 میں ایک سیلاب کے نتیجے مں بہہ گیا، دوسرا آہنی پل 1899میں تعمیر ہوا ۔ باسیاں کے شاہنواز خان کو ان دونوں پلوں کا ٹھیکہ ایوارڈ ہوا جبکہ بیروٹ کے پہلے انجینیئر مستری نور الٰہی نے ان دونوں پلوں کو نہ صرف ڈیزائن کیا بلکہ اس کی نگرانی میں انکی تعمیر مکمل ہوئی، پلوں کی وجہ سے سری نگر کا برائے راست تجارتی رابطی راولپنڈی سے ہو گیا اور کشمیری اجناس پنجاب پہنچنے لگیں، اس کے علوہ پبلک ٹرانسپورٹ کی داغ بیل بھی ڈالی گئی، 1910 میں ترمٹھیاں کے دیوان سنگھ کی چار بسیں راولپنڈی سرینگر روٹ پر دوڑنے لگیں، دیوان سنگھ کا بتیجھا کاکا سنگھ سرکل بکوٹ کا پہلا ڈرائیور تھا۔اس روٹ پر اسی بس کا 1920میں پہلا حادثہ برسالہ کہ مقام پر ہوا جس میں بیروٹ کے میاں میر جی شاہ سمیت 20افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔انگریزوں نے کوہالہ کو تجارتی مرکز کی حیثیت کے ساتھ ساتھ ایک سیاحتی مرکز بھی بنایا، یہاں پر ایک ریسٹ ہائوس، تار گھر، پوسٹ آفس، ایک شراب خانہ اور بعد میں منشیات ڈپو بھی بنایا، یہ بازار ایک میل لمبا تھا اور اس کی حیثیت باب کشمیر کی تھی، اس سے قبل 1855 کے لگ بھگ کوہالہ کو ہزارہ کی کمشنری سے جھری کس کی اراضی کے تبادلے میں مری کا حصہ بنایا گیا اور اس کی لیز ایک سو سال کیلئے پنجاب حکومت نے حاصل کر لی۔ 1947 تک کوہالہ کی 85 فیصد تجارت ہندو ساہوکاروں کے ہاتھ میں تھی اور مقامی مسلمان محض خریدار تھے۔
عہد حاضر میں اگرچہ کوہالہ اپنی مرکزی حیثیت کھو چکا ہے، سردار مہتاب کے عہد میں سڑکوں کے وسیع نیٹ ورک کی وجہ سے کوہالہ پر اہلیان سرکل بکوٹ کا انحصار نہ ہونے کے برابر ہے، آزاد کشمیر میں بھی منڈیاں قائم ہونے کے بعد یہاں سے اب کچھ بھی برآمد نہیں ہو رہا، اب تو نیو کوہالہ برج کی تعمیر کے بعد گوجر کوہالہ کی تجارتی حیثیت دوبارہ بحال ہوئی ہے، یہ اولڈ کوہالہ اب محض ماضی کا ایک قصہ ہے جو تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو چکا ہے۔
کوہالہ کی دفاعی حیثیت
پاکستان بننے کے بعد کوہالہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے، اگست 1947 میں کوہالہ پل بند کر دیا گیا تھا جو دسمبر میں دوبارہ کھولا گیا اور یہاں سے پنڈی مری اور مری ہلز ٹرانسپورٹ کے نئے روٹ کا اجرا ہوا۔ کشمیر میں جوں جوں حالات خراب ہوتے گئے توں توں کوہالہ پل اور بازار پر بھارتے حملوں میں بھی شدت آتی گئی، 2نومبر 1947 کو بھرتی بزدل فضائیہ نے کوہالہ پر پہلا حملہ کیا تا ہم اس سے صرف ایک دکان کو نقصان پہنچا، اسی ماہ میں بیس روز بعد بھارت نے کوہالہ پر دوسرا حملہ کیا، 21اگست 1949کو تیسرے بھارتی حملے میں متعدد افراد زخمی جبکہ ایک مقامی شخص سجاد جاں بحق ہو گیا، 1985 اور 1971 کی پاک بھرت جنگوں کے دوران بھی اس پل پر کئی ایک حملے کئے گئے مگر پاکستانی شاہینوں نے بھارتی بزدلوں کے کوہالہ کو تباہ کرنے کے خوابوں کو منتشر کر دیا۔
کوہالہ کی سیاسی حیثیت
روایت ہے کہ چمیاٹی کے عبدالرزاق عباسی نے کوہالہ پل پر پنڈت لال نہرو کو تھپڑ رسید کیا تھا، انیس سو پینتیس کے قانون ہند کی منظوری کے بعد 1936میں برصغیر کے پہلے انتخابات ہوئے، ان انتخابات کی سیاسی اہمیت کے پیش نظر کوہالہ سرکل بکوٹ کا مرکز بن گیا، یہاں پر پنجاب اور ہزارہ کی سیاسی تاریخ کے پہلے عوامی جلسے مسلم لیگ، کانگریس، ہندو سکھ نیشنلسٹ پارٹی، ڈیمو کریٹک پارٹی اور احراروں کے جلسوں سے صاحبزادہ عبدالقیوم (بعد میں وزیر اعلیٰ سرحد بنے)، حاحبزادہ پیر حقیق اللہ بکوٹی، سردار حسن علی خان، عبدالرحمٰن خان (لورہ)، سرادر کالا خان، سردار نور خان، سردار عبدالرب نشتر اور دیگر نے خطاب کیا، 26جولائی1945 کو قائد اعظم کشمیر سے کوہالہ پل عبعر کر کے جب غربی کوہالہ میں داخل ہو ئے تو فضا پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اتھی، آپ کو اہلیان کوہسار نے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا، اور ان کی کار کے پیچھے احترام میں دیول تک گئی اور صلیال (داخلیات بیروٹ) سے انہیں رخصت کیا، 1946 میں پنڈت نہرو شیخ عبداللہ اور سرحد کے آخری کاگریسی وزیر اعلی ڈاکٹر خٓن کے ہمراہ کشمیر سے واپسی پر کوہالہ پل عبعر کرنے لگا، یو سی بکوٹ اے ایک بہادر شخص حلوائی ہوٹل والے نے ملنے کے بہانے کوہالہ پل کے درمیاں پنڈت نہرو کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ دے نارا، ایک روایت یہ بھی ہے کہ طمانچہ رسید کرنے والا چمیاٹی کا عبدالرزاق عباسی تھا تاہم یہ طمانچہ بعد میں کشمیر کی قسمت میں آج تک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ کوہالہ پل آزادی کے دوران کشمیریوں کیکئے ایک زندگی اور موت کا سوال بن گیا اور باسیاں کے مرد مجاہد سردار یعقوب خان نے اس کا محافظ بن کر کشمیریوں کے لئے زندگی کی علامت اور ان لے دلوں میں امر ہو گیا، 1952 میں جب سرکل بکوٹ میں پاکستانی تاریخ کے پہلے الیکشن ہوئے تو سرکل بکوٹ میں ماضی کے کانگریس نواز امیدوار سردار حسن علی خان کیخلاف اسی کوہالہ میں عوام نے اپنی نفرت کا اظہار کیا اور اس کے مقابلہ میں حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹی کو کامیاب کرایا، یہی وہ کوہالہ پل ہے جہاں صدر ایوب خان، وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو، صدر ضیاء الحق، وزیر نواز شریف اور دیگر سیاسی زعمائوں نے خطاب کیا، یہاں پر 1977 میں پی این اے کی بھٹو مخالف تحریک کے دوران سابق ایئر مارشل اصغر خان نے بھٹو کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ میں بھٹو کو کوہالہ پل پر دختہ دار پر لٹکائوں گا، امر ہو گیا اور ان الفاظؓ کی عملی تعبیر بھی آگئی۔ آزاد کشمیر یونیورسٹی مظفر آباد کے سابق پروفیسر صابر آفاقی کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اپنے سفر کشمیر کے دوران کوہالہ پل سے گزرتے ہوئے اپنی بانگ درا کی پہلی نظم ہمالہ کا آغاز کیسا تھا جو سری نگر پہنچ کر مکمل کی تھی۔ یہ پہلے اشعار اس طرح ہیں۔
اے ہمالہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
کاش......... آج کا کوہالہ بھی مقامی
لوگوں کے دلوں میں بھی اسی طرح زندہ ہوتا مگر عہد غلامی کی اس علامت کو
مٹنا ہی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ سو وہ مٹ گئی، اب نیا سویرا ہے اور نئی نسل اپنی منزل
آسمانوں میں ڈھونڈ رہی ہے کوہالہ کی پستیوں میں نہیں۔چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
جب قائد اعظم نے تاریخی کوہالہ پل عبور کیا؟ |
*******************************
باب دوئم
سرکل بکوٹ کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ یونین کونسل
بیروٹ
![]() |
چیئرمین ندیم عباسی |
![]() |
سابق چیئرمین حاجی اعظم خان |
![]() |
سابق ناظم آفاق عباسی |
![]() |
سردار مہتاب کے اعزاز میں اہلیان بیروٹ کا استقبالیہ کا بیبر |
![]() |
کہوشرقی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایم این اے ڈاکٹر اظہرچیئرمین ویلج کونسل اسدرزاق عباسی
کے ہمراہ بلدیاتی انتخابات کے بعد پہلی وی سی کے پہلے منصوبے کے طور پرچوریاں ہمبوتر روڈ کی کشادگی اور کارپٹنگ کا افتتاح کر رہے ہیں، اس ڈیڑھ کلو میٹر روڈ پر 2 کروڑ 25 لاکھ روپے لاگت آئے گی۔ روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد ۔۔۔۔۔۔۔ 11 مارچ، 2020ء |
![]() |
اسدرزاق عباسی، چیئرمین |
![]() |
سابق ناظم طاہر فراز عباسی |
![]() |
لیڈی کونسلر شمیم عباسی |
![]() |
نمبردار ایسب خان |
![]() |
خواج محمد عباسی، چیئرمین |
![]() |
روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد، 11مئی 2016 |
![]() |
بیروٹ
کی پانچویں ویلج کونسل بیروٹ خورد ہے جس کی حدود بکوٹ کس سے موہڑہ
کس اور کنیر کس سے موشپوری تک ہیں۔ یہاں ڈھونڈ عباسیوں کی ذیلی برادریوں نکودرال
اور موجوال کے علاوہ سادات، چوہدری، اعوان بھی بستے ہیں، زیادہ تر لوگ بزنس مین
اور ٹرانسپورٹر ہیں اور کراچی، راولپنڈی اور اسلام آباد میں مقیم ہیں اور بیرون
ملک بھی ملازمت کرتے ہیں۔ بیروٹ خورد کے اہم علاقوں میں بھن، چلہوٹہ، نڑی ہوتر،
ہوترول، کھرینڈی، سانگریڑی، نکر موجوال، ہوتریڑی، ریالی اور موشپوری ہیں۔ ماضی
میں یہاں سے برکات خان، نواز عباسی یونین کونسل کے جنرل کونسلر منتخب ہوتے رہے
ہیں۔ یہاں سے سوار گلی بوئی روڈ، بھن بکوٹ روڈ، کھن خورد
روڈ اور موہڑہ ہوتری
چوک لنک روڈ گزرتی ہیں ۔ یہاں کے لوگوں کا زیادہ تر ذاتی کاروبار ہے جن میں
اخبار فروشوں کے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافی شاہد عباسی، اعجاز
عباسی، کلیم عباسی، چوہدری اسحاق بھی شامل ہیں۔ نکر موجوال کے فاروق ریالی،
ہوتریڑی کے اقبال عباسی اس وقت اہم سیاسی فعال شخصیات ہیں۔ارشد عباسی ایڈوکیٹ کا
تعلق بھی نکر موجوال سے ہے جو سپریم کورٹ کے نامور وکلامیں شامل ہیں۔ نواز عباسی
کراچی بار کے دوبار صدر بنے ہیں اور اہم وکیل ہیں، سی کاز یونیورسٹی پشاور کے
قدآور چیف ایگزیکٹو کلیم عباسی کا تعلق بھی نکر موجوال سے ہے، نکر موجوال کا نام
16صدی کے سردار موج خان کے نام سے موسوم ہے
جو کنی سے موشپوری تک کی جاگیر کے مالک تھے، موشپوری بھی دراصل موج خان کے نام
پر موجپوری ہے جو بدل کر موشپوری یا موشک پوری ہوگیا ہے۔بیروٹ کی شمال میں ویلج
کونسل کہو غربی ہے کی حدود موہڑہ کس سے ریالہ کس اور کنیر کس سے رامکوٹ اور
ڈونگا گلی تک ہیں۔ یہاں پر اکثریتی ڈھونڈ عباسی قبیلہ کی ذیلی شاخوں نکودرال اور
قطبال کے علاوہ
چوہدری اور قریشی برادری بھی رہتی ہے۔ بیروٹ کے جنگل کا بڑا حصہ
اور ترمٹھیاں کا واٹر ریسورس بھی یہاں ہی ہے، یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش
راولپنڈی اور کراچی میں ذاتی کاروبار ہے۔ یہاں پر ایک مڈل سکول اورپانچھ پرائمری
سکول ہیں، اس ویلج کونسل میں موہڑہ کے مقام پر ایک سینٹی ٹوریم ہے جہاں سے پورا
علاقہ استفادہ کررہا ہے۔ سحر پبلک سکول کے نام سے اکلوتا پرائیویٹ سکول اور کالج
بھی ہے جہاں بی اے تک تعلیم دی جارہی ہے، یہاں کی اہم شخصیات میں کراچی کے معروف
بزنس مین امتیاز عباسی ، سابق چیئرمین قاضی سجاول خان، پروفیسر شرافت علی، فضل رحیم
عباسی، صحافیوں میں شاکر عباسی، شہزاد عباسی اور روزنامہ آئینہ جہاں کے چیف
ایڈیٹر اشتیاق عباسی شامل ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے یہ سب سے چھوٹی ویلج کونسل ہے۔
اس میں گزشتہ 5 صدیوں سے 1975تک علاقے بھر کی ضروریات پوری کرنے کے لئے چندراں
نی ڈھیری پر پن چکیاں بھی موجود رہی ہیں۔ ماہرین ارضیات کے مطابق اسی ویلج کونسل
میں گندھک ، کوئلے اور ہیرے کے ذخائر بھی ہیں۔ ایک لفٹ کے ذریعہ کہو شرقی سے
منسلک ہے، آخر میں دعا ہے کہ یہ چمن اسی طرح شاد آباد اور شہرت کی بلندیوں پر
چاند بن کر سدا چمکتا اور دمکتا رہے۔
![]() |
چیئرمین بیروٹ خوردرحیم دادعباسی |
![]() |
ایک پہلو یہ بھی ہے کانڈھاں کی تصویر کا۔۔۔ |
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد
|
*******************************
باب سوئم
دیول شریف
شمالی تحصیل مری کی مثالی یونین کونسل
******************************
اگر شمالی پنجاب کا ذکر ہو اور اس کے فطری
اجلے پن اور حسن کا تذکرہ نہ ہو تو یہ خود حسن فطرت سے لبریز اس علاقے اور یہاں کے
لوگوں کے ساتھ زیادتی ہو گی، یہ ذکر ہے سمالی پنجاب کی آخری یونین کونسل دیول کا،
جس کے بہترین دماغ پاک فوج اور سول حکومت کی پالیسی سازی میں اپنا اہم کردار ادا کرتے
رہے ہیں اور آج بھی اپنی قومی خدمات کے سلسلے میں سر فہرست ہیں۔ جنرل انیس عباسی،
خاقان عباسی، شاہد خاقان عباسی اور پیر صاحب دیول شریف پیر عبدالمجید احمد علوی دیول
کا وہ مستند حوالہ ہیں جن کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا بلکہ ان ہی کی وجہ سے اوسیا
کی یہ ڈھوک دیول آج شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔![]() |
خاقان عباسی مرحوم |
دیول۔۔۔۔۔۔۔ ماضی بعید کے کسی دور میں بھی
کسی بھی حوالے سے کوئی تاریخی، تمدنی اور علمی نشانی نہیں ملتی اس کی بڑی وجہ یہ ہے
کہ دیول نمب رومال کی اس عہد میں ایک رکھ یا شاملات تھی اور اس کے سارے لوگ دروازہ
ملکوٹ، نمب اور پلک یونین کونسل سے تعلق رکھتے ہیں،انیسویں صدی کے آغاز تک دیول اور
نمب کا مرکزی سیاسی مقام اوسیا تھا جہاں گزشتہ آٹھ سو سال سے گکھڑ دور اقتدار میں
بلدیاتی نظام کا نیوکلس بھی تھا اور یہاں پر شمالی مری کے لوگوں کے مقدر کے فیصلے ہوتے
تھے،اوسیاہ کا وہ دیوان (موجودہ دور کی یونین کونسل کا دفتر) جو گکھڑ اقتدار کے بعد
مقامی کھتریوں کی لوٹ مار کا گودام، انیسویں صدی کے وسط کے بعد غیر ملکی سیاحوں کا
ریسٹ ہائوس اور اٹھارہ سو ستر کے عشرہ سے کوسار کی قدیم ترین علمی درسگاہ کا روپ اختیار
کئے ہوئے ہے، اسی سکول نے ماضی کے اوسیاہ کی جگہ اس کی ڈھوک دیول کو اس کی علمی دماغوں
کی بدولت اتنا سربلند کیا کہ اب ہر حوالے سے
اوسیا نہیں بلکہ دیول کی ہی بلے بلے ہے۔
اوسیاہ سے متعلق مختلف نظریات
اوسیاہ
قبل از اسلام کے ایک کیٹھوال سردار عیس یا عبس خان (اس طرح کے نام جناب
صبیر ستی ایڈووکیٹ کی کتابوں ستی سماج اور تاریخ ستیاں میں موجود کیٹھوالوں
کے شجروں میں بھی ملتے ہیں) کے نام پر دسویں صدی میں آباد ہوا تھا، وہ بھی
باسیاں کے باس خان نامی سردار باس خان کی طرح اپنے وقت کا ایک مہمان نواز
اور شیو کا وہ پجاری یا عقیدت مند تھا جو دیول کے مندر میں کشمیر سے ٹیکسلا
آنے اور جانے والوں (خواہ وہ یاتری ہوتے ئا طالبعلم) اپنے مہا مہنت شری
دیول کرشن کی قربت چاہتا تھا، ڈاکٹر لارنس اے باب اپنی کتاب ابسنٹ لارڈ، ایکسکیٹس اینڈ کنگز ان اے جین ریشوایل کلچر کے صفحہ دو سو گیارہ کے نوٹس میں تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
۔۔۔۔۔
راجستھان میں ایک گائوں ملپور پٹن جسے اوسیا بھی کہا جاتا تھا اس میں
ڈھونڈی مل نامی ایک سادھو ریتا تھا، اس نے اپنے ایک چیلے کو خیرات وغیرہ
لانے کیلئے اس علاقے میں بھیجا مگر وہاں کے لوگوں نے انہیں کچھ نہ دیا جس
پر اس سادھو نے اس گائوں کو ویران کر دیا،
۔۔۔۔۔۔۔۔
اوسیا ایک دیوی کا نام بھی ہے جہاں نوراتری (نو راتیں) سال میں دوبار ماہ
چیت اور اسوج میں بسر کرنی پڑتی ہیں اور یہاں پر اس دیوی پر نذرانے نچھاور
کرتے ہیں، یہاں پر ایک پجارن ساسیا ماتا رہتی تھی جس نے جین مت قبول کیا
تھا اور اس نے یہاں مندر بنایا،
۔۔۔۔۔۔۔۔ اوسیا نامی گائوں میں جین مت کے بانی مہاویر کا مندر بھی موجود ہے۔
ایک اور کتاب راج راپسودیس، ٹویزم، ہریٹیج اینڈ دی سیڈکشن آف ہسٹری کا مرتب ڈاکٹر اہم ویسگرائو صفحہ ایک سو اڑسٹھ پر لکھتا ہے کہ راجستھان میں اوسیا دیوی کی ماں کا نام اوسیا ماتا یا اوسیا کا بھیرو تھا۔ وی اے سانگیو اپنی کتاب جین کمیونیٹی، اے سوشل سروے کے صفحہ تریاسی پر لکھتا ہے کہ بھارت میں مرواڑ کے علاقے میں ایک قصبہ اوساوالا کا ہے جس کی اصل اوسیا ہی ہے۔ اگر ان روایات کو پیش نظر رکھ کر تحصیل مری کے اس علاقہ کا قدیم تاریخی تناظر میں مذہبی تجزئیہ کیا جائے تو (راقم الحروف کی ذاتی رائے کے مطابق) یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہندو مذہب سے قبل اس خطہ کوہسار میں قدیم جین مت رائج تھا، سنسکرت میں جین کا مطلب نفس کشی یا نفس پر فتح ہے اور اس کے ماننے والے عدم تشدد، عدم مطلق العنانیت وغیرہ پر اعتقاد رکھتے ہیں، اس طرح یہ حقیقت بھی تقریباً طے ہو جاتی ہے کہ اوسیا کا یہ علاقہ جین مت کا گڑھ تھا اور موجودہ ہائر سیکنڈری سکول یا پڑائو کا مقام پر وہ مندر قائم تھا جہاں اوسیا دیوی کی مورت رکھی ہوئی تھی اور اس کے پجاری وہاں پوجا کرتے تھے، تین ہزار سال قبل جب فارس کے کیٹھوالوں اور وسط ایشیا سے آریائی راجپوتوں نے یہاں قدم رکھا تو جین مت کی جگہ ہندو مت کے شیو دیوتا کا مذہب رائج کیا گیا، انہوں نے اوسیا کی جگہ دیول مندر کی مناسبت سے اس علاقے کا نام ہی بدل کر دیول رکھ دیا اور اوسیا محض اس کی ایک ڈھوک بن گئی۔
دیول کہتے کس کو ہیں اور اس کا پس منظر کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اس کا جواب جاننے کیلئے انڈولوجی (قدیم ہند کو سمجھنے کا علم) سے رجوع کرنا پڑے گا، قدیم ہند کے متنازعہ قانون ساز منو جی کی منو سمرتی کہتی ہے کہ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں ھندو شیو دیوتا کی مورتی کے آگے اپنا ماتھا ٹیکتے ہیں، سنسکرت ڈکشنری میں اسے سمال ٹمپل کے معانی دئے گئے ہیں، معروف ماہر علم البشریات (انتھروپولوجی) عزیز احمد اپنی کتاب پاکستان سٹوپاز، اکونومیا اینڈ میں دیول کو بدھ مذہب کے سٹوپا کا نام دیتے ہیں، یہ افغان لفظ بھی ہے جو فن مصوری اور علامت سازی کیلئے استعمال ہوتا ہے،قدیم ہندوستان اور جدید بھارت میں دیوتائوں اور لوگوں کے نام بھی ہوتے ہیں جن میں ایک دیوتا دیول کرشن بھی ہے، قدیم گجرات کے حکمران رائے کارن کی اس بیٹی کا نام بھی دیول رانی تھا جس کے افیئر ہندوستانی حکمران علائوالدین خلجی کے بیٹے خضر خان کے ساتھ تھے، وارث شاہ کی طرح امیر خسرو نے بھی اپنی مثنوی میں ان شاہی ہیر رانجھا کا ذکر مزے لے لیکر کیا ہے۔ای جے بریل کے فرسٹ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کی جلد چہارم میں اس معاشقے کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ اس شاہی جوڑے نے چودہ اپریل تیرہ سو بیس کی شب شادی بھی کر لی تھی،جرنل آف پاکستان ہسٹوریکل سوسائیٹی ، دوہزار پانچ کے مطابق دیول ایک ہندو دیوی کا نام بھی ہے جبکہ بینی گپتا اپنی کتاب میجیکل بیلیف انڈ سپر سٹیشنز میں ضیاء الدین برنی کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ اسی دیول رانی کی بیکا نیر میں دیول دیوی کے طور پر پوجا بھی کی جاتی ہے، رائیٹنگ ان انڈیا، دی ٹونٹی انتھ سنچری کی مصنفہ سوزی جے تھاروکی جے للیتا کے مطابق دیول پدما کے نام سے ایک بنگلہ دیشی نژاد بھارتی ناول نگار زلیخا سانیال نے انیس سو چونسٹھ میں ایک ناول لکھا تھا جس کے معنی دیوار کے پھول کے ہیں، معروف اسلامی مورخ طبری کے مطابق دیول کو عربی میں دیبل کہتے ہیں اور اس کے لئے طبری نے موجودہ بن قاسم پورٹ کراچی کے قریب دیبل کا حوالہ دیا ہے اور اسی کو ہسٹاریکل سوسائیٹی اسلام آباد کی شائع شدہ کتاب پروسیڈنگ آف دی پاکستان ہسٹری کونسل میں بھی معتبر مانا گیا ہے۔ جدید بھارت میں ممبئی کی فلمی صنعت کے راجکمار اور راجکماریاں ابھے دیول، دھرم سنگھ دیول (دھرمندر) بوبی دیول اور سنی دیول سے کون آشنا نہیں، بالخصوص نئی نسل کے وہ بانکے جو زندہ ہی بھارتی فلمیں دیکھ کر رہتے ہیں۔
ایک اور کتاب راج راپسودیس، ٹویزم، ہریٹیج اینڈ دی سیڈکشن آف ہسٹری کا مرتب ڈاکٹر اہم ویسگرائو صفحہ ایک سو اڑسٹھ پر لکھتا ہے کہ راجستھان میں اوسیا دیوی کی ماں کا نام اوسیا ماتا یا اوسیا کا بھیرو تھا۔ وی اے سانگیو اپنی کتاب جین کمیونیٹی، اے سوشل سروے کے صفحہ تریاسی پر لکھتا ہے کہ بھارت میں مرواڑ کے علاقے میں ایک قصبہ اوساوالا کا ہے جس کی اصل اوسیا ہی ہے۔ اگر ان روایات کو پیش نظر رکھ کر تحصیل مری کے اس علاقہ کا قدیم تاریخی تناظر میں مذہبی تجزئیہ کیا جائے تو (راقم الحروف کی ذاتی رائے کے مطابق) یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہندو مذہب سے قبل اس خطہ کوہسار میں قدیم جین مت رائج تھا، سنسکرت میں جین کا مطلب نفس کشی یا نفس پر فتح ہے اور اس کے ماننے والے عدم تشدد، عدم مطلق العنانیت وغیرہ پر اعتقاد رکھتے ہیں، اس طرح یہ حقیقت بھی تقریباً طے ہو جاتی ہے کہ اوسیا کا یہ علاقہ جین مت کا گڑھ تھا اور موجودہ ہائر سیکنڈری سکول یا پڑائو کا مقام پر وہ مندر قائم تھا جہاں اوسیا دیوی کی مورت رکھی ہوئی تھی اور اس کے پجاری وہاں پوجا کرتے تھے، تین ہزار سال قبل جب فارس کے کیٹھوالوں اور وسط ایشیا سے آریائی راجپوتوں نے یہاں قدم رکھا تو جین مت کی جگہ ہندو مت کے شیو دیوتا کا مذہب رائج کیا گیا، انہوں نے اوسیا کی جگہ دیول مندر کی مناسبت سے اس علاقے کا نام ہی بدل کر دیول رکھ دیا اور اوسیا محض اس کی ایک ڈھوک بن گئی۔
دیول کہتے کس کو ہیں اور اس کا پس منظر کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اس کا جواب جاننے کیلئے انڈولوجی (قدیم ہند کو سمجھنے کا علم) سے رجوع کرنا پڑے گا، قدیم ہند کے متنازعہ قانون ساز منو جی کی منو سمرتی کہتی ہے کہ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں ھندو شیو دیوتا کی مورتی کے آگے اپنا ماتھا ٹیکتے ہیں، سنسکرت ڈکشنری میں اسے سمال ٹمپل کے معانی دئے گئے ہیں، معروف ماہر علم البشریات (انتھروپولوجی) عزیز احمد اپنی کتاب پاکستان سٹوپاز، اکونومیا اینڈ میں دیول کو بدھ مذہب کے سٹوپا کا نام دیتے ہیں، یہ افغان لفظ بھی ہے جو فن مصوری اور علامت سازی کیلئے استعمال ہوتا ہے،قدیم ہندوستان اور جدید بھارت میں دیوتائوں اور لوگوں کے نام بھی ہوتے ہیں جن میں ایک دیوتا دیول کرشن بھی ہے، قدیم گجرات کے حکمران رائے کارن کی اس بیٹی کا نام بھی دیول رانی تھا جس کے افیئر ہندوستانی حکمران علائوالدین خلجی کے بیٹے خضر خان کے ساتھ تھے، وارث شاہ کی طرح امیر خسرو نے بھی اپنی مثنوی میں ان شاہی ہیر رانجھا کا ذکر مزے لے لیکر کیا ہے۔ای جے بریل کے فرسٹ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کی جلد چہارم میں اس معاشقے کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ اس شاہی جوڑے نے چودہ اپریل تیرہ سو بیس کی شب شادی بھی کر لی تھی،جرنل آف پاکستان ہسٹوریکل سوسائیٹی ، دوہزار پانچ کے مطابق دیول ایک ہندو دیوی کا نام بھی ہے جبکہ بینی گپتا اپنی کتاب میجیکل بیلیف انڈ سپر سٹیشنز میں ضیاء الدین برنی کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ اسی دیول رانی کی بیکا نیر میں دیول دیوی کے طور پر پوجا بھی کی جاتی ہے، رائیٹنگ ان انڈیا، دی ٹونٹی انتھ سنچری کی مصنفہ سوزی جے تھاروکی جے للیتا کے مطابق دیول پدما کے نام سے ایک بنگلہ دیشی نژاد بھارتی ناول نگار زلیخا سانیال نے انیس سو چونسٹھ میں ایک ناول لکھا تھا جس کے معنی دیوار کے پھول کے ہیں، معروف اسلامی مورخ طبری کے مطابق دیول کو عربی میں دیبل کہتے ہیں اور اس کے لئے طبری نے موجودہ بن قاسم پورٹ کراچی کے قریب دیبل کا حوالہ دیا ہے اور اسی کو ہسٹاریکل سوسائیٹی اسلام آباد کی شائع شدہ کتاب پروسیڈنگ آف دی پاکستان ہسٹری کونسل میں بھی معتبر مانا گیا ہے۔ جدید بھارت میں ممبئی کی فلمی صنعت کے راجکمار اور راجکماریاں ابھے دیول، دھرم سنگھ دیول (دھرمندر) بوبی دیول اور سنی دیول سے کون آشنا نہیں، بالخصوص نئی نسل کے وہ بانکے جو زندہ ہی بھارتی فلمیں دیکھ کر رہتے ہیں۔
دیول شمالی پنجاب کا پنجاب ہزارہ کے بائونڈری آڑی
پر واقع ایک ماڈل ویلیج ہی نہیں اس نام سے پاکستان۔ افغانستان اور بھارت میں کثرت سے
گائوں بھی ہیں، دیگر دیول نامی گائوں میں شاردہ آزاد کشمیر، ضلع
پزاور میں دیول گڑھی، دریائے سندھ پر وہ مقام
جہاں بیٹی سے شادی کرنے والے پرتھوی راج کو اس کے بیٹے بھیما نے گیارہ سو پچاسی میں قتل کیا تھا دیول کہلاتا
ہے، افغانستان میں روس کے خلاف جس زیرو پوائنٹ
سے جہاد کا آغاز کیا گیا تھا وہ بھی سرخ دیول کے نام سے جانا جاتا ہے،بھارت میں دیول
دیپ کے نام سے ایک مندر بھی ہے جہاں راجہ چندر ورما نے آخری سانس لی تھی ، ماہرین
انڈولوجی کے مطابق دیول دیپ کے معنی اس خدا کے ہیں جو اپنا خاندان بھی رکھتا ہے تاہم
یہ معنی مشکوک ہیں کیونکہ دیپ کا معنی سنسکرت میں روشنی کا دیا یا مشعل ہوتا ہے، انگریز
سیاح آرتھر نیل نے اپنی کتاب دی لیجیسی آف کشمیر، لداخ اینڈ سکردو میں پہلی بار اٹھارہ
سو ستر میں دنیا کو مری کے اس سرحدی قصبے سے
روشناس کرایا تھا تا ہم اٹھارہ سو چتھتیس میں جب ہری سنگھ نلوہ کی فوج نے جد دیول پر
حملہ کیا اور یہاں لوٹ مار کی تو یہاں کے لوگوں نے پیر عبدالمجید احمد علوی کے دادا
مولانا پیر محمد ہاشم کی قیادت میں ان کا مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کیا، سی موقع
پر پھگواڑی کے دارا نامی مقام پر ایک سکھ جنرل کو جہنم واصل کیا گیا تھا، دیول کے شہداء
کی قربانی کا یہ اثر ہوا کہ اٹھارہ سو ستاون میں مری شہر پر قبضہ اور اس کے بارے میں
پورا نیٹ ورک قائم کرنے کا منصوبہ اسی دیول کی ڈھوک سیداں میں بنایا گیا، اس کے منصوبہ
ساز دو سید برادران سید امیر علی اور سید اکرم علی تھے اور اسے سردار شیر باز خان نے بروئے کار لانا
تھا مگر ایک مقامی خاتون نے اپنے بھائی کی جان بچانے کیلئے یہ منصوبہ دشمن تک پہنچا
دیا جس کی ناکامی کے بعد تحصیل مری کا کوئی گائوں ایسا نہیں تھا جہاں پر مقامی آبادی
کا قتل عام نہ کیا گیا ہو اور ایک ماہ تک وہاں کے سر فروشوں کے بذر آتش ہونے والے
گھروں سے دھواں نہ اٹھتا رہا ہو، آخری جنگ
ازادی کے ہیرو باز خان اور ان کے بیٹوں کو توپ زد کیا گیا اور سید برادران کی زندہ
کھال اتاری گئی ، ان کی ڈھوک سیداں کو دیول سے کاٹ کر یو سی بیروٹ کا حصہ بنا دیا گیا۔
بعض کولوں کا خیال ہے کے کہ دیول اور ہزارہ
کی صوبائی بائونڈری یعنی آڑی انگریزوں نے بنائی تھی، مگر یہ درست نہیں، یہ بائونڈری سولہویں
صدی میں دھونڈ عباسیوں کے دو خاندانوں ہجال اور لہرال میں اراضی کے ایک جھگڑے کو نمٹانے کی نشانی ہے
جسے سکھوں اور انگریزوں دونوں نے برقرار رکھا، انگریزوں نے صرف اتنا رد و بدل کیا کہ
انہوں نے دیول کی ڈھوک سیداں کو پنجاب سے نکال کر ہزارہ کی یو سی بیروٹ کے ساتھ ملا
دیا۔(بحوالہ تاریخ گکھڑاں از راجہ حیدر زمان کیانی)
سترھویں صدی میں گکھڑوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ تعلیم کے بغیروہ دیول میں اقتدار
بر قرار نہیں رکھ سکتے کیونکہ مقامی قبائل ان کے "کنکوت نامی ایک ٹیکس کیخلاف بغاوت پر آمادہ تھے
، راولپنڈی گزیٹئر کے مطابق گکھڑوں نے وسط دیول میں ایک سکول بنانے کا قصد کیا اور
اس کے انتظامات کی ذمہ داری پیر صاحب دیول شریف کے ایک بزرگ عبداللہ علوی کے کندھوں
پر ڈالی، اور اس کے عوض ان کی تمام ذمہ داریاں بھی گکھڑ حکومت نے اپنے سر لیں، انیسویں
صدی کے آغاز میں گکھڑ اقتدار کے خاتمہ اور سکھوں کی وجہ سے سیاسی ابتری کے دوران اس
سکول نے علی گڑھ یونیورسٹی جیسی تحریک کی بنیاد ڈالی اور سکھوں سے نفرت کی یہ صورتحال
پیدا ہوئی کہ نہ صرف اٹھارہ سو چھتیس میں ہری سنگھ نلوہ نے یہاں چڑھائی کی بلکہ مولانا
ہاشم علوی سمیت یہاں کے تین ہزار حریت پسندوں کو شہید کیا اور ان کی لاشوں کو پنجاب
ہزارہ سرحد پر موجودہ کرکٹ سٹیڈیم کے مقام پر قلعہ بنیادوں میں ڈال کر دیواریں اٹھائی
گئیں مگر اس کے باوجود اہلیان دیول اور پیر صاحب کے اجداد نے یہ سکول بند نہ ہونے دیا،
آج کل یہ تاریخی سکول پھر قلعہ کے مقام پر علم کی کرنیں بکھیر رہا ہے، اوسیا کا زمینداری
پرائمری سکول بعد میں مڈل، پھر ہائی اور اب ہائر سیکنڈری سکول کی شکل اختیار کر چکا
ہے، اس کے پہلا طالبعلم راجہ دلیر خان تھے جبکہ اس علمی درسگاہ سے سابق وزیر اعلی اور
موجودہ گورنر کے پی کے سردار مہتاب احمد خان، جنرل (ر) ریاض عباسی،
بریگیڈئر تاج عباسی، ائر کموڈور خاقان عباسی، سابق صدر ضیا الحق کے معالج حکیم قاضی
ظفیرالحق علوی چشتی، ڈاکٹر حکیم محمود احمد خان جدون قادری، جنرل انیس عباسی، معروف
اعوان دانشور محبت حسین اعوان سمیت بے شمار نامور لوگ فارغ التحصیل ہیں،بریگیڈئر تاج
عباسی نے ماہنامہ ڈیفنس جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اوسیا ہائی سکول میں ہمارے
اساتذہ میں ہندو اور سکھ بھی شامل تھے جو بغیر کسی مذہبی تعصب کے تعلیم ڈیلیور کر رہے
تھے،بریگیڈئر صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے مسلمان اساتذہ میں محمد خاقان اور (باسیاں کے) قاضی ظفیرالحق علوی
چشتی سب سے قابل اور نمایاں معلمین تھے، سکھ انسائیکلو پیڈیا کے مطابق ہائی سکول اوسیا
کے ریاضی کے ایک ہندو استاد بھگت سنگھ کوانیس
سو سنتالیس میں اس وقت اس کے ہونہار طلبا نے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تاہم اسے اس
کی بھنک پڑ گئی اور وہ دریائے جہلم کی طرف بھاگ نکلا مگر تیراکی نہ جاننے کی وجہ سے
ڈوب گیا، دیول کا پہلا گرلز سکول انیس سو چوبیس میں قائم ہوا جبکہ اس کی طالبہ سعیدہ
خاتون اپ گریڈیشن کے بعد ہائر سیکنڈری کا درجہ ملنے کے بعد اس کی پہلی پرنسپل تعینات
ہوئیں، اس وقت دیول یونین کونسل میں دو بنک، ایک وٹرنری ہسپتال، تین لنک روڈز اور ایک
یوٹیلیٹی سٹور موجود ہے اور اب اسے ماڈل ویلیج قرقر دینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
اہلیان دیول نے بالواسطہ ہی سہی مگر قیام
پاکستان سے پہلے اپنا اہم کردار ادا کیا، حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ نے اوسیا میں سکول کے سامنے ایک مسجد کی بنیاد ڈالی اور کوہسار میں پہلا
جمعہ پڑھایا، سب سے اہم بیداری کی لہر مارچ انیس سو چوالیس میں پیدا ہوئی جب یہاں کے
قلعہ گرائونڈ میں مسلم لیگ کا سردار نور خان کی زیر صدارت ایک جلسہ ہوا، جس کے مہمان
خصوصی حکیم عبدالخالق علوی تھے، اس سے مقامی ہندو آبادی اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ ان
کی اپیل پر مری انتظامیہ نے برطانوی فوج کی جاٹ رجمنٹ اور پولیس کی بھاری نفری دیول
میں تعینات کر دی، چھبیس جولائی کو جب قائد
اعظم سری نگر سے مری جا رہے تھے تو لوئر دیول کے مقام پر اہلیان دیول نے بابا امیر
احمد خان کی قیادت میں اپنے محبوب رہنما کا استقبال کیا اور انہیں گلدستہ پیش کیا،
قیام پاکستان کے بعد اہلیان دیول اوسیاہ
نے علاقائی اور قومی سطح پر بھی شاندار کارنامے انجام دئے، عسکری محاذ پر دیول کے فرزند
انیس سو پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں میں اگلے مورچوں پر نظر آتے ہیں، جہاد افغانستان میں بھی
ان کے کارنامے سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں، اس وقت شاہد خاقان عباسی وفاقی
وزیر پٹرولیم ہیں تاہم ان کے ووٹروں کا ان سے جائز گلہ بھی ہے کہ وہ اپنے علاقہ کے
مسائل پر توجہ نہیں دے رہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اٹھارویں صدی کے اوسیا کی ایک غیر
معروف ڈھوک دیول اس لئے آج دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے کہ یہاں پر کوہسار کی
سب سے پہلی درسگاہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کے فرزندوں نے پاکستانی قوم کو کچھ
ڈیلیور کیا ، ورنہ ہزارہ کی پڑوسی یونین کونسل بیروٹ کے سکولوں کے انہدام پر تو سرکل
بکوٹ کے حکمرانوں کے دلوں میں لڈو پھوٹ رہے ہیں اور بیروٹ کے بکرے اپنے قصائیوں کے
ہاتھ میں خون آلود چھرے دیکھ کر انہیں چوم بھی رہے ہیں۔
حوالہ جات
*ابسنٹ لارڈ، ایکسکیٹس اینڈ کنگز ان اے جین ریشوایل کلچر از ڈاکٹر لارنس اے باب
*راج راپسودیس، ٹویزم، ہریٹیج اینڈ دی سیڈکشن آف ہسٹری از ڈاکٹر اہم ویسگرائو
*جین کمیونیٹی، اے سوشل سروے از وی اے سانگیو
*تاریخ گکھڑاں از راجہ حیدر زمان کیانی
*پاکستان سٹوپاز اینڈ اکونومیا از عزیز احمد
*فرسٹ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام، جلد چہارم
*جرنل آف پاکستان ہسٹوریکل سوسائیٹی ، دوہزار پانچ
*میجیکل بیلیف انڈ سپر سٹیشنزازبینی گپتا
*رائیٹنگ ان انڈیا، دی ٹونٹی انتھ سنچری از سوزی جے تھاروکی جے للیتا
*پروسیڈنگ آف دی پاکستان ہسٹری کونسل اسلام آباد
*دی لیجیسی آف کشمیر، لداخ اینڈ سکردوازآرتھر نیل
*ماہنامہ ڈیفنس جرنل کو بریگیڈئر تاج عباسی کا انٹرویو
*سکھ انسائیکلو پیڈیا
مقامی اردو مصادر و مراجع
*کیگوہر نامہ، ترجمہ از ڈاکٹر سید عبداللہ (یہ گکھڑوں کی سرکاری تاریخ ہے، یہ کتاب مجھے فائز اختر کیانی صاحب نے مرحمت فرمائی ہے)
*تاریخ مری از نور الہی عباسی
*داستان مری از پروفیسر کرم حیدری
*تاریخ علوی اعوان از محبت حسین اعوان
*ید بیضا از حضرت پیر محمد ازہر بکوٹیؒ
*خروج جنت سے عروج عباسیہ تک از نعیم عباسی (برائے شجرہ جات اہلیان بیروٹ)
*ستی سماج از صبیر ستی ایڈووکیٹ (کوہسار کا زرعی تمدن اور اس کا قبائل سے تعلق)
*تاریخ ستیاں از صبیر ستی ایڈووکیٹ (کیٹھوالوں کے شجروں کیلئے استفادہ کیا)
بیرونی روابط ، ویب سائٹس
1 یونین کونسل دیول
2 دیول سے دیول شریف تک
3 دیول کا جغرافیہ
4 دیول میں لینڈ سلائیڈنگ
5 دیول میں لینڈ سلائیڈ۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔کیوں؟
6 مختصر تاریخ مری
7 پیر صاحب دیول شریف کا ایک یادگار خطبہ
8 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دیول شریف بھی دیکھا
9 میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بریگیڈئر تاج عباسی کا انٹرویو
10 مری کی سیاسی تاریخ از وجیہہ احمد عباسی، کنڈاں
11 اوسیا اور بیروٹ کی تعلیمی تاریخ
یونین کونسل بیروٹ کے مسائل
گورنر سردار مہتاب کا دورہ بیروٹ
****************
نو نومبر دوہزار پندرہ کو اہلیان بیروٹ اپنے
محبوب رہنما، گورنر خیبر پختون خوا ، اور دوہیترمان (بھانجھے) سردار مہتاب احمد
خان کے اعزاز میں ہائر سیکنڈری سکول بیروٹ (نیو کیمس) کے سبزہ زار میں ایک شاندار
استقبالیہ دیا جس میں انہیں صوبے کا سب سے بڑا منصب سنبھالنے پر مبارکباد بھی دی
اور اور ننھیالی ہونے کی حیثیت سے گلے شکوے بھی کئے، سردار مہتاب کا گورنر اور
حاجی بننے کے بعد یونین کونسل بیروٹ کا یہ پہلا دورہ ہے۔ ان کے ہمراہ ان کے فرسٹ
کزن اور ایم پی اے سردار فرید خان، سابق ایم پی اے سردار شمعون خان، اعلیٰ ضلعی و
صوبائی حکام بھی تھے، ان کے دورہ کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ ایک سو اسی یوم قبل
ایم پی اے سردار فرید خان نے اسی سکول کی مبینہ نئی بلڈنگ کا افتتاح کیا تھا مگر
وہ فنڈز ہونے کے باوجود ہنوز تعمیراتی عمل سے محروم ہے اس کے علاوہ چند روز قبل
اسی سکول سے سو گز کے فاصلہ پر جنوب میں ایم این اے ڈاکٹر اظہر نے کہو شرقی جلیال
روڈ کی کشادگی اور کارپٹنگ کا افتتاح کیا تھا جس پر نون لیگی حلقے شدید برہم ہیں
اور وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ منصوبہ سردار مہتاب خان کا ہے اور ایم این اے نے
محض تختی لگائی ہے، سابق ناظم آفاق عباسی کہتے ہیں کہ ہم نے کارکنوں کو سختی سے
ہدایت کی ہے کہ وہ ڈاکٹر اظہر کی تختی کی بطور خاص حفاظت کریں تا کہ دوہزار اٹھارہ
میں اہلیان بیروٹ جان سکیں کہ کام کس کا ہے اور انہیں مکمل کون کرتا ہے؟ دوسری طرف
نون لیگ کے اس بےقرار گروپ کے ایما پر گورنر نے عجلت بھری دورے سے کئی ایک سوالات
بھی پیدا کر دئے ہیں جن کے جوابات کچھ تو سامنے آ چکے ہیں اور کچھ عام قومی
انتخابات تک دھیرے دھیرے سامنے آتے رہیں گے۔
سردار مہتاب خان اپنے ننھیال آئے ہیں اور
ننھیالی کسی لالچ کے بغیر اپنے دوہیترمان پر اپنی محبتیں نچھاور کیا کرتے ہیں، اس
لئے کہ یہی ہمارے کوہسار کی روایت اور دستور بھی ہے، سردار صاحب نے اسی یونین
کونسل سے اپنی سیاست کا آغاز بھی کیا تھا اور گزشتہ تیس سالوں میں اہلیان بیروٹ نے
ان سے جو وفائیں کیں اور نبھائیں وہ ان سے بھی بخوبی آشنا ہیں، دنیا نے دیکھا کہ
اہلیان بیروٹ کے دوہیترمان نے شہر اقتدار اسلام آباد کی وفاقی وزارتوں سے لیکر صوبہ
خیبر پختونخوا کی وزارت اعلیٰ اور گورنری کے آخری منصب تک کا تاج سروری پہنا تھا
اور پہنے ہوئے ہے، اس کی سیاست اور سیاسی نظریات سے لاکھ اختلاف سہی مگر یہ بات
ماننا پڑے گی کہ سردار مہتاب کی سروری کی وجہ سے ہی سرکل بکوٹ میں درجنوں میل پیدل
چلنے والوں کو سواری ملی، مائوں بہنوں کے سروں سے گاگریں اتریں مگر یہ بھی حقیقت
ہے کہ سردار مہتاب کے دور اقتدار میں ہی سرکل بکوٹ بالعموم اور بالخصوص یو سی
بیروٹ کی آٹھ نسلوں کو زیور تعلیم سے اراستہ کرنے والی طلبا و طالبات کی علمی
درسگاہوں کو عمارات سے محروم کر کے انہیں سر بازار رسوا کر دیا گیا، اہلیان سرکل
بکوٹ جانتے ہیں بزم نشاط ہو یا اٹک قلعہ کی تنہائیاں اور کرب، ان کا لیڈر کردار کا
غازی اور وفائوں کو نبھانے والا قابل فخر فرزند کوہسار ہے مگر اس کا ایک المیہ یہ
ہے کہ تمام تر انٹیلی جنس وسائل کے باوجود اپنے حلقے کے حالات سے آگائی کیلئے اسے
ان خوشامدیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے جو اسے حلقے کے اصل حالات کے بجائے سب او کے
کی رپورٹ دیتے ہیں، یہ وہ خوشامدی گروپ ہے جو اپنے ہموطنوں کو ہمیشہ اپنا محتاج
دیکھنا چاہتا ہے اور۔۔۔۔۔ اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے گورنر سردار مہتاب کو جلدی میں
اپنے وطن لا کر بے معنی بحثیں اور سیاسی تنگ نظری کا بیج بو دیا ہے جس کی وجہ سے
اہلیان سرکل بکوٹ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ کے پی کے کا گورنر اب صرف ایم این اے کی
تختی اکھاڑ کر اپنی تختی کی نقاب کشائی کیلئے رہ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟
یوں تو یو سی بیروٹ کے اتنے مسائل ہیں کہ بیان
سے باہر ہیں مگر تعلیم اور صحت کے مسائل سر فہرست ہیں، یو سی بیروٹ میں اس وقت دو
بی ایچ یوز ہیں، بیروٹ کا بی ایچ یو گزشتہ
پندرہ سالوں سے زیر تعمیر ہے، کھیرالہ بی ایچ یو کی طرح یہاں ابھی تک خرکاروں نے
گدھے تو نہیں باندھے مگر پندرہ سال سے زیر تعمیر اس بی ایچ یو میں باندھے جا سکتے
ہیں اگر اس کی تعمیر میں مزید تاخیر ہوئی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا میٹیریل بھی ڈکارا جا
چکا ہے، یہ بی ایچ یو اس وقت بیروٹ کی مرکزی جامع مسجد کے تہہ خانے میں اپنی خدمات
سرانجام دے رہا ہے۔
یو سی بیروٹ کا دوسرا اہم مسئلہ اس کی نو نسلوں
کو زیور تعلیم سے اراستہ کرنے والے بوائز اور گرلز سکولوں کی عمارات کی تعمیر نو
کا ہے، جن کی عمارات کو یا تو لیگی ٹھیکیدار ڈکار گئے ہیں یا ان کے ایک سو ساٹھ
دنوں سے وعدے کئے جا رہے ہیں، بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے ضلعی امیدوار
مفتی عتیق عباسی نے تعلیمی نقصان کے حواکے سے ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی تھی جس
میں انہوں نے بتایا تھا کہ دو ہزار پانچ کے بعد تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے
جلیال، بانڈی اور باسیاں کی نوے فیصد طالبات سفری مشکلات اور طویل فاصلوں کی وجہ
سے مڈل سے سے آگے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں، جبکہ بیروٹ کا گرلز ہائیر سیکنڈری
سکول عمارت نہ ہونے کے باعث ترمٹھیاں کے پرائمری سکول میں ضم کر دیا گیا ہے، ہم تو
سردار صاحب کے دور اقتدار میں لڑکے لڑکیوں کے ڈگری کالجز کے خواہاں تھے جبکہ عملاً
ہم سے ہمارے بزرگوں کے چندے سے بنائے گئے سکول بھی چھین لئے گئے ہیں، بیروٹ کا
سکول انیس سو تین میں اہلیان بیروٹ ریالہ سے لائے تھے کیونکہ اٹھارہ سو اٹھانوے
میں قائم ہونے والا یہ سکول بیروٹ کے اساتذہ مولانا اسماعیل علوی اور سید فضل حسین
شاہ جیسے ٹیچر ہونے کے باوجود پانچ سالوں میں پامچ طالب علم بھی پیدا نہیں کر سکا
تھا اور وہاں کے لوگ حصول تعلیم کا کار بیکاراں سمجھتے تھے، جب اس سکول کی ناقص
کارکردگی کی وجہ سے ہزارہ کے تعلیمی حکام نے اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا تو بیروٹ
کا ایک وفد اپنے اساتذہ مولانا اسماعیل
علوی اور سید فضل حسین شاہ کی قیادت میں ضلعی حکام سے ملا اور سکول بیروٹ منتقل
کرنے کی درخواست کی اور ساتھ ہی سکول کیلئے عمارت بھی پیش کر دی جسے حکومت نے قبول
کر لیا اوربیروٹ بھی پہلے سکول کی نعمت سے سرفراز ہو گیا، اس سکول کے پہلے طالب
علم راجہ حیدر زمان کے والد نذر محمد خان تھے، اس وفد میں موجودہ چیئرمین وی سی
بیروٹ ندیم عباسی کے پڑدادا سردار گل حسن خان، سابق جنرل کونسلر ذوق اختر عباسی کے
دادا عبدالکریم خان، سائیں محمد عباس خان کے والد محمد حسن خان اور ولی احمد خان
شامل تھے، اگرچہ وہ خود تو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے مگر علم دوست اور تعلیم
نواز تھے، انہوں نے لڑکے اور لڑکیوں کے سکولوں کیلئے اپنی عمارات دیں، خود اپنی
خدمات بھی پیش کیں، بیروٹ کے پچیس پی ایچ ڈیز میں سے سولہ نے انہی سکولوں کی ٹاٹوں
پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی اور بیروٹ کو صوبہ بھر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ یونین
کونسل کا اعزاز دلوایا۔ بوائز سکول کو انیس سو چھپن میں مڈل کا درجہ ملا، انیس سو
اکسٹھ میں سردار عرفان خان کے یو سی بکوٹ بیروٹ منتخب ہونے کے بعد اہلیان بیروٹ کا
ایک خصوصی اجلاس ہوا جس میں مڈل سکول کی نئی عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ ہوا، اس
مقصد کیلئے سردار عرفان خان کی سربراہی میں ایک تعمیراتی کمیٹی بنائی گئی جس میں
گورنر صاحب کے نانا سردار اکرم خان کے علاوہ حاجی سرفراز خان، منشی اقنال خان، حاجی
اعظم خان، صادق عباسی، فضل الرحمان فیض، ٹھیکیدار عزیز خان، حاجی حبیب الرحمان،
راجہ آزاد خان، نمبردار ایسب خان اور راجہ نذر خان شامل تھے، انیس سو تریسٹھ تک اس
کمیٹی نے ملک کے طول و عرض سے تئیس لاکھ روپے جمع کئے، کہو والے حاجی سرفراز خان
کی کوششوں سے سکول کیلئے ان کی برادری نے اراضی بھی فی سبیل اللہ دی اور اگلے سال
آٹھ کمروں پر مشتمل مڈل سکول بیروٹ کی عمارت کھڑی ہو گئی جو انیس سو ستر میں ہائی
سکول اور انیس سو ستانویں میں ہائر سیکنڈری سکول میں ڈھل گئی،بعد میں وزیر اعلیٰ
سردار مہتاب احمد خان کے اعلان کردہ فنڈز سے طلبا و طالبات کے سکولوں کی عمارت بنی،
کاش زلزلہ نہ آتا اور آج ہمارے طالب علم در بدر نہ ہوتے۔ گورنر سردار مہتاب نے ان
سکولوں کی نئی عمارات کی تعمیر نو کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی نہ ہی بی ایچ یو کی
اور ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ صرف اپنی تمام تر مصروفیات چھوڑ چھاڑ کر صرف کہو
جلیال لنک روڈ کے افتتاح اور اعلانات کیلئے آئے تھے، انہوں نے ساڑھے سات کروڑ روپے
چھ کلو میٹر جنڈالہ روڈ، ایک کروڑ بہتر لاکھ روپے دس کلو میٹر سورجال لنک روڈ اور
ڈیڑھ کلو میٹر کہو جلیال لنک روڈ کیلئے مختص کرنے کا اعلان کیا، انہوں نے بیروٹ
میں ڈگری کالج،کوہالہ ، ریالہ اور نمبل میں ہسپتال کے قیام کا اعلان بھی کیا، مگر
اب سوال یہ ہے کہ کیا فاٹا کے امور کا ذمہ دار گورنر اپنے اعلان کردہ منصوبوں
کیلئے رقم لائے گا کہاں سے۔۔۔۔۔؟ کیا یہ محض سادہ لوح عوام علاقہ کیلئے ان کے کزن
اور ایم پی اے سردار فرید خان کی طرح تالیوں کے گونج میں لپ سروس ہے یا اس کا کوئی
حاصل وصول بھی ہو گا؟ گورنر سرادر مہتاب خان نے ایسا کیوں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ یہ
ان کا فرض ہی نہیں اپنے ننھیال کا قرض بھی تھا، اس معاملے میں جو تاخیر ہونی تھی
تو وہ ہو چکی، اب دانش کوہسار کی اس قدیم
کہاوت پر ایمان لانا ہی پڑے گا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوہیترمانوں پر مان نہیں کرنا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوہیترمان بے وفا
ہوتے ہیں۔
*********************
عید قربان ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ کوہسار
عید کے روز ہم اور قربانی کا
خون پینے والے پالتو جانور ہی اسلام آباد کی خالی سڑکوں نظر آتے ہیں
اہلیان کوہسار کو سے راولپنڈی
تک سفر کی وہ صعوبتیں برداشت نہیں کرنی پڑتیں جو راولپنڈی سے کوہسار کے آبائی علاقوں
تک جانے میں ہوتی ہیں
عیدین پر بھی ہمارے ملکوٹی سردار، دیول
کے عباسی صاحبان اور دیگر صاحبان آبائی وطن
میں ہونے کے باوجود اس شہر اقتدار سے باہر نہیں جاتے
سرکل بکوٹ میں آزاد کشمیر اور
ہزارہ سے جبکہ کوہ مری میں بھارہ کہو اور راولپنڈی سے جانوروں کی خریداری کی جا رہی
ہے
ایک صحت مند بیل نے
حضرت پیر بکوٹیؒ کی ولایت کا رجوعیہ شریف میں اعلان کر دیا تھا
میتیں لینے والے بزرگوں، بچوں
اور خواتین کی قطاریں پرانے وقتوں میں بھی لمبی ہوتی تھیں اور آج بھی طویل نظر آتی
ہیں
گوشت لینے کیلئے اس پرانے
دور میں چھینا جھپٹی نہیں ہوتی تھی، آج قربانی کے گوشت کو جان پر کھیل کر حاصل کیا
جاتا ہے
ہماری نئی نسل عید کے موقع پر
گوشت کی نئی نئی ڈشوں کا تجربہ بھی کرتی ہے
کانگو وائرس سے بچائو کیلئے
اپنے بچوں کو جانوروں کے ساتھ لاڈ پیار سے محفوظ رکھیں تا کہ یہ معصوم بھی محفوظ ہو
جائیں
تحقیق و تحریر ۔۔۔۔۔۔۔ محمد
عبیداللہ علوی
پاکستان کا دل لاہور اور اس کا دماغ اسلام آباد ہے
۔۔۔۔ اسلام آباد کوئی پہلی بار نہیں، تیسری بار دارلحکومت بنا ہے ۔۔۔۔ پہلی بار چار
قبل مسیح میں گندھارہ سلطنت کا دارالحکومت
تھا جسے ۔۔۔۔ باختر، وسطی ایشای سے طوفان کی طرح آنے والے سفید ہنوں نے ۔۔۔۔ پیدائش
رسول ﷺ کے سال ۔۔۔۔ 571عیسوی۔۔۔۔ میں اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ دنیا
کی سب سے بڑی ہجرت وجود میں آئی، یہاں کا سارا تمدن دوآبہ میں چلا گیا جو ۔۔۔۔
1947 ۔۔۔۔۔ میں واپس اس خطہ میں لوٹا، دوسری بار یہ علاقہ ۔۔۔۔ 1000 عیسوی ۔۔۔۔ میں گکھڑ سلطنت کا دارلحکومت
بنا جب محمود غزنوی نے پورا پوٹھوہار، کوہ مری، گلیات اور سرکل بکوٹ ۔۔۔۔۔ گکھڑ شاہ
کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بخش دیا، یہ سلطنت ۔۔۔۔1810عیسوی تک۔۔۔۔۔۔ قائم و دائم رہی اور
سکھوں نے اس کا شیرازہ بکھیر دیا ۔۔۔۔۔ تیسری اور آخری بار یہ علاقہ اسلامی جمہوریہ
پاکستان کا وفاقی دارالحکومت ۔۔۔۔1960عیسوی ۔۔۔۔۔ میں سابق صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب
خان نے بنایا ۔۔۔۔ وہ موجودہ ضلع ہری پور کو
وفاقی دارالحکومت بنانا چاہتے تھے مگر ان کے گرائیں نہ مانے تو ۔۔۔۔سکندر اعظم کا ہم عصر مگر ظالم ترین یونانی
حکمران مہر گل کے نام سے موسوم ۔۔۔۔ مارگلہ
کے دامن کا یہی خطہ ۔۔۔۔ اسلام آباد کے نام سے وفاقی دارالحکومت ٹھہرا ۔۔۔
اسلام آباد کی مقامی آبادی تو 1962میں
راولپنڈی منتقل ہو گئی تھی، اب یہاں پر بیس فیصد وہ لوگ مقامی ہیں جن آگا پچھا کوئی
نہیں، مگر ہمارے ملکوٹی سردار، دیول کے عباسی صاحبان اور انہی کی طرح کے کئی نامور
صاحبان اقتدار اپنا سب کچھ اپنے آبائی وطن میں ہونے کے باوجود اس شہر اقتدار سے باہر
جانے کیلئے تیار نہیں ۔۔۔۔ وزیر اعظم نواز شریف، تمام کابینہ، وفاقی وزرا، اور ایم این ایز بھی اپنے اپنے آبائی علاقوں میں جا
جا رہے ہیں،عید الاضحی بس آیا ہی چاہتی ہے، جمعۃ المبارک اسلام آباد میں اس ہفتہ
کا آخری ورکنگ ڈے تھا ۔۔۔۔ اور پھر سرکاری ملازمین کی لمبی تعطیلات ۔۔۔۔ غالبا وہ
۔۔۔۔ اگلے سے اگلے سوموار کو ہی واپس آئیں گے ۔۔۔۔ یوں یہ شہر اقتدار آج سے خالی
ہو نا شروع ہو گیا ہے ۔۔۔۔ عید کے روز ہم صحافی ہی اس شہر اقتدار میں نظر آئیں گے
۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔ وہ پالتو جانور جو قربانی کا
خون پی پی کر ۔۔۔۔ اسلام آباد کی خالی سڑکوں پر مٹر گشت کر رہے ہوں گے۔
ہم اہلیان کوہسار کا تجربہ ہے کہ ہمیں کینیڈا
اور امریکہ سے راولپنڈی تک سفر کی وہ صعوبتیں برداشت نہیں کرنی پڑتیں جو راولپنڈی سے
کوہسار کے آبائی علاقوں تک جانے میں ہوتی ہیں، ٹرانسپورٹر یکطرفہ سواری کا بہانہ بنا
کر دونوں ہاتھوں سے سوریوں کی پاکٹ خالی کرتے ہیں، سفری دہشتگردی یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ پیسے
دیکر اس عید سعید پر قربانی کی طرح جاہل اور وحشی کنڈیکٹروں سے دوران سفر بے عزتی اور
بدسلوکی کروانا بھی ضروری ہوتا ہے، نو ذوالحجہ کو یہ ٹرانسپورٹرز سواریوں کو خھجل خوار
کرنے کیلئے اپنی گاڑیاں ۔۔۔۔ لاپتہ کر دیتے
ہیں ۔۔۔۔ اور جنہوں نے اپنے پیاروں کے پاس جانا ہوتا ہے انہیں ایک ہزار سے دوہزار روپے تک ٹیکسیاں بک کرنا پڑتی ہیں ۔۔۔۔ اس
موقع پر یہ سوال شدت سے تنگ کرتا ہے کہ ۔۔۔۔ ہم یہودیوں سے بھی گئے گزرے ہیں جو
۔۔۔۔ اپنی چار عیدوں پر ۔۔۔۔ اپنے سارے وسائل اپنے ہم مذہبوں کی آسانہوں کیلئے وقف
کر دیتے ہیں ؎
تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو
آج کل قربانی کا سیزن بھی ہے ۔۔۔۔۔ ہر صاحب استطاعت مسلمان ان دنوں سنت
ابراہیمی کی ادئیگی کا ذکر اپنے لبوں پر سجائے ہوئے ہے ۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔ اس حکومتی کانگو
وائرس سے بچائو مہم پر بھی حیران ہے جیسے ۔۔۔۔۔ دنیا میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے
۔۔۔۔۔ کانگو کا مرض واقعی بہت مہلک ہے اور اس سے جتنا دور رہا جا سکے اچھا ہے ۔۔۔۔
لیکن در پردہ حقیقت کچھ اور ہے ۔۔۔۔۔۔ جب فارماسیوٹیکل کمپنیاں اپنی کسی پروڈکٹ کو
مارکیٹ کرنے کے باوجود ۔۔۔۔۔ سیل کا مطلوبہ ٹارگٹ حاصل نہ کر سکیں تو ۔۔۔۔۔ وہ خود
۔۔۔۔ اور ان کے خریدے ہوئے سرکاری اہلکار اس ۔۔۔۔ کار خیر۔۔۔۔ میں حصہ لیتے ہیں اور
یہ غیر ملکی ادویہ ساز کمپنیاں ۔۔۔۔۔ اپنے پینل کے ڈاکٹروں کی طرح ان کے اکائونٹس بھرنے
کے علاوہ ۔۔۔۔۔ انہیں غیر ملکی سیاحتی دوروں پر بھی بھیج دیتی ہیں۔
اس عید قرباں پر ۔۔۔۔۔ گزشتہ سال کی طرح
امسال بھی ۔۔۔۔۔ جماعت اسلامی بیروٹ کے امیر مفتی عتیق عباسی نے ۔۔۔۔۔ ساہیول کی
۔۔۔۔ ودیا نسل کے مویشی فار سیل رکھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔جس سے اہلیان بیروٹ بھرپور استفادہ
کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ قیمتیں بھی مناسب بتائی جا رہی ہیں جبکہ باقی سرکل بکوٹ میں آزاد
کشمیر اور ہزارہ سے اور کو مری میں بھارہ کہو اور راولپنڈی سے جانوروں کی خریداری کی
جا رہی ہے ۔۔۔۔۔ اس وقت راولپنڈی اسلام آباد کی مویشی منڈیوں میں آپ آئیں تو
۔۔۔۔۔ پتہ چلے کہ قیمتیں کیا ہیں ۔۔۔۔۔؟ ایک صحتمند ویہڑے اور ویہڑیاں یہاں پر
۔۔۔۔۔ تقریباً ۔۔۔۔۔ 80,000 سے لیکر120,000روپے ۔۔۔۔۔ تک فروخت ہو رہے ہیں، میں نے
یہاں لفظ ۔۔۔۔ صحت مند ۔۔۔۔۔ استعمال کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔ ویہڑہ یا ویہڑی
کی ان دنوں منڈی میں روزانہ مالش کی جاتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ روزانہ تیل اور مہندی
سے اس کی چمڑی کے بال بھی چمکائے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ عام دنوں میں ان بیچارے جانوروں کی
قلت خوراک کی وجہ سے ۔۔۔۔ بکھیاں ۔۔۔۔ اندر گئی ہوتی ہیں مگر اس عید سیزن میں ان کی
بھی عید ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ کھل، سوہڑی وغیرہ مادہ جانوروں کو اس لئے کھلائی جاتی ہے کہ
وہ دودھ زیادہ اور گھنا دیں ۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔ یہی خوراکیں نر جانوروں کو بھی عید کے دنوں
میں ۔۔۔۔۔ گیس آور کیمیکلز ملی کھل سوہڑی وغیرہ کے ساتھ دی جارہی ہیں ۔۔۔۔۔ اس کا
مقصد ۔۔۔۔۔ جانور کی اوجڑی میں گیس پیدا کر کے اس کی بکھیوں کو ۔۔۔۔۔ فل بھرنا ہوتا
ہے جس سے ۔۔۔۔۔ جانور بہت صحت مند نظر آتا ہے، گاہک سے اس کی اچھی قیمت بھی مل جاتی
ہے۔
ایک وقت تھا کہ ۔۔۔۔۔ کوہ مری، سرکل بکوٹ
اور گلیات میں ۔۔۔۔۔ گُشٹی کے علاوہ ۔۔۔۔۔ سال بھر کے پلے ہوئے قربانی کے جانور دیکھنے
سے تعلق رکھتے تھے ۔۔۔۔۔ اسی قسم کے ایک صحت مند اور فربہ گستاخ بیل نے ۔۔۔۔۔ حضرت
پیر بکوٹیؒ ۔۔۔۔ کی ولایت کا بھی رجوعیہ شریف حویلیاں میں اعلان کر دیا تھا ۔۔۔۔۔ ہوا
یوں کہ ۔۔۔۔۔ عید قرباں پر ایک بیل کسی کےقابو نہیں آ رہا تھا ۔۔۔۔۔ جوان جہان حضرت
پیر بکوٹیؒ بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔ کافی وقت گزر گیا مگر جو بھی اس کے پاس
اسے ۔۔۔۔۔ ٹہنگنے ۔۔۔۔ کیلئے جاتا وہ اسے اپنے سینگوں پر اٹھا لیتا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر
آپؒ آگے بڑھے، گستاخ مست ویہڑے کو سینگوں سے پکڑا اورنیچے پٹخ دیا اور اسی حالت میں
اس کے گلے پر چھری چلائی گئی ۔۔۔۔۔ اس کے بعد لوگ آپ کو ۔۔۔۔۔ مولانا بکوٹیؒ ۔۔۔۔
کے بجائے ۔۔۔۔۔ پیر بکوٹیؒ ۔۔۔۔ کہنے لگے، اس عہد میں ہر گھر میں قربانی کا جانور موجود
ہوتا تھا، بھیڑ، دنبہ، بکری اور بکرے کی قربانی تو ہر گھر میں ہوتی تھی تاہم ۔۔۔۔ چار
سے چھ من گوشت والے بیل اور گائے کی قربانی سب مل کر کرتے تھے، ایک ہی جگہ پر پانچ
سات قربانیاں ہوتی تھیں، حصہ داروں کے علاوہ ۔۔۔۔۔ خویش اور درویش کے حصوں کو ملا کر
۔۔۔۔۔ وہاں ہی ۔۔۔۔۔ سارے گوشت کی میتیں بنا کر ۔۔۔۔۔ بانٹ دی جاتی تھیں ۔۔۔۔۔ ایک
بات کی حیرانگی ضرور ہے کہ ۔۔۔۔۔ میتیں لینے والے ۔۔۔۔۔ بزرگوں، بچوں اور خواتین کی
قطاریں ۔۔۔۔۔ اس وقت بھی لمبی ہوتی تھیں اور آج بھی طویل نظر آتی ہیں ۔۔۔۔۔ فرق صرف
اتنا ہے کہ ۔۔۔۔۔ گوشت لینے کیلئے اس وقت چھینا جھپٹی نہیں ہوتی تھی ۔۔۔۔ آج کل
۔۔۔۔ قربانی کے مقام پر بانٹے جانے والے گوشت کو ۔۔۔۔۔ نہ صرف جان پر کھیل کر حاصل
کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ بلکہ اس گوشت کے حصول کیلئے ۔۔۔۔۔ بڑے عبرتناک، اذیت ناک اور خوفناک
مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔۔۔۔۔ قربانی کرنے والے بعض مخیر حضرات بھی ۔۔۔۔۔ اس
موقع پر مستحقین سے بُخل میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ اس گوشت کو مستحقین
کے پاس پہنچانے کے بجائے ۔۔۔۔۔ فریج اور فریزرز ۔۔۔۔۔ میں سٹور کر لیتے ہیں اور کم
از کم دو ماہ ۔۔۔۔۔ اس گوشت پر بڑے با سہولت گزار لیتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس لئے کہ ۔۔۔۔۔ کوہسار
میں ہڈی والا گوشت اڑھائی سو روپے ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ راولپنڈی میں ۔۔۔۔۔ ساڑھے تین سو
روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔
کوہسار کے گھروں میں گائے ، بیل، بھینس
وغیرہ خال خال ہی ملتی ہیں، اس کی وجہ زرعی تمدن کا زوال، کم آمدنی، جانوروں سے کراہت
اور اس پر محنت سے گریز ہے، آج کل ہماری نئی نسل ۔۔۔۔۔ عید کے موقع پر ۔۔۔۔۔ اس گوشت
کی نئی نئی ڈشوں کا تجربہ کرتی ہے، نئی نئی Recipes آزمائی جاتی ہیں، کوفتے، پارچے ،حلیم،
روسٹ، قورمہ، بریانی اور پلائو کی ڈشیں عید کے ایک ہفتہ تک جاری رہتی ہیں ۔۔۔۔ نوجوان
بھی کسی سے اس لذت کام و دہن میں پیچھے نہیں رہتے، اس کیلئے وہ بغدے (ٹوکے)، چھریاں،
سلاخیں اور چولہے کے علاوہ پانچ سے دس کلو کوئلےکا بھی انتظام کر کے ۔۔۔۔۔ اپنے ماہر
شیف ہونے کی ساری صلاحیتوں کا اظہار کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ اب یہ گوشت کی قسمت ہے کہ
۔۔۔۔۔ وہ واقعی مطلوبہ ڈش میں ڈھل کر ۔۔۔۔۔ داد عیش پاتا ہے یا ۔۔۔۔۔۔ پہلے ہی نوالے
میں شاہی باورچی کے کمال فن کی ناکامی کا اعلان کرتا ہے ۔۔۔۔؟
شہری بچوں کیلئے عید کے
جانور ۔۔۔۔ تفریح ۔۔۔۔۔ کا ذریعہ ہوتے ہیں ، اب کوہسار میں بھی نئی نسل سمیت یہ کمسن
بچے ۔۔۔۔۔ یہ تفریح جانور کے ساتھ لاڈ پیار، اسے پتوں کی صورت میں چارہ ڈال کر حاصل
کرتے ہیں ۔۔۔۔ مگر والدین سے ۔۔۔۔۔ میری اپیل، درخواست، استدعا اور التجا ہے کہ
۔۔۔۔۔ خدا کیلئے اپنے ان بچوں کو ۔۔۔۔۔ قربانی کے جانوروں کے ذبیحہ کے مناظر سے دور
رکھیں ۔۔۔۔۔ گزشتہ سال لاہور میں ۔۔۔۔۔ تین بچوں نے ۔۔۔۔۔ کھیل کھیل میں قصائی بن کر
۔۔۔۔۔ اپنے سات ہمجولیوں کو ذبح کر دیا تھا ۔۔۔۔ حکومتی وارننگ پر جائیں تو ۔۔۔۔۔ کانگو
وائرس سے بچائو کیلئے ۔۔۔۔۔ اپنے بچوں کو جانوروں کے ساتھ لاڈ پیار سے محفوظ رکھیں
۔۔۔۔ تا کہ یہ معصوم بھی ۔۔۔۔۔ محفوظ ہو جائیں ۔۔۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے اور
آپ سب کو سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق فرمائے ۔۔۔۔ آمین 
روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد
نيپال ميں80 برس ميں آنے والے سب سے خطرناک زلزلے کے متاثرين تک امداد پہنچانے کے لیے بين الاقوامي امدادي سرگرمیں تيز ہوگئي ہيں۔ امدادي اداروں نے عالمي برادري سے ادويات، خيموں اور نقد رقوم کي اپيل کي ہے۔Nepal Earthquake
ReplyDelete