Sunday 10 January 2016

  
پی ایچ ڈی سکالرز کی حامل سرکل بکوٹ کی مظلوم ترین یونین کونسل بیروٹ
 ناظم بیروٹ خالد عباس عباسی اور نائب ناظم قاضی سجاول خان اس قدر مصروف ہیں کہ بیروٹ کے عوام کیلئے ان کے پاس اب وقت ہی نہیں
مقامی وی آئی پی کلچر کی اٹھان کے بعد  فرائض سے غفلت برتنے والے والے سرکاری و غیر سرکاری فرعونوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے
بوائز سکول کے پتھر، کھڑکیاں، دروازے، سیلنگ وغیرہ مقامی لٹیرے دن کے اجالے میں ٹرالیاں بھر بھر کر لے جا رہے ہیں،کیا بیروٹ اور کہو شرقی کے چیئر مین  ندیم عباسی اور اسد عباسی اور ان کے رفقاء  ان  لٹیروں کو لگام نہیں ڈال سکتے
 تعلیمی لحاظ سے بڑوں کی اس بڑی یونین کونسل میں کھیل کا کوئی سرکاری گرائونڈ نہیں   اس کے باوجود بیروٹ کے ان بے وسائل کھلاڑیوں کی اہلیت دیکھئے کہ انہوں نے گزشتہ ماہ ایوبیہ میں ہونے والے کرکٹ ٹورنامنٹ میں چیت کا اعزاز ٹرافی سمیت اپنے نام کیا
 
 بیروٹ کے زلزلہ متاثرین آج بھی اپنے ایم این اے اور ایم پی اے کی راہیں تک رہے ہیں ، ضلعی اور صوبائی حکومت سے زلزلہ متاثرین کی امداد کی ذمہ داری انہی کی ہے، پتہ نہیں  خالد عباس اور قاضی سجاول نے اپنے بڑوں سے کوئی بات بھی کی ہے یا نہیں 

 تحریر:محمد عبیداللہ علوی


مورخ، صحافی اور انگریزی اردو بلاگر
کہنے کو تو یونین کونسل بیروٹ اس وقت سرکل بکوٹ بھر میں پی ایچ ڈی کے 25 سکالرز کے ساتھ ایک مثالی اور سب سے زیادہ پڑھی لکھی یو سی ہے مگر اندرون خانہ اس یو سی کے تہذیبی، سماجی اور سیاسی کشمکش کے مثائل اتنے زیادہ ہیں کہ ۔۔۔۔۔ بس اس پر الحفیظ و الامان ہی کہا جا سکتا ہے، کے پی کے میں نئے بلدیاتی نظام کی پیدائش اور اس کی حالیہ انتخابات میں اٹھان سے ہم اہلیان بیروٹ اس لحاظ سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ اب نشیب میں بہنے والے کنیر کس میں پانی کی جگہ دودھ اور مشرق میں بہتے دریایئے جہلم میں شہد کا پانی چل رہا ہو گا مگر چند ماہ بعد پتہ یہ چلا کہ۔۔۔۔ ہنوز دلی دور است، صورتحال یہ ہے کہ ہم لوگ ایم این اور ایم پی اے کے وی آئی پی کلچر، شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور وزیر اعظم جیسے پروٹوکول اور نشست و برخاست کا رونا رو رہے تھے اور ہمیں یہ بھی شکایت تھی کہ اپریل میں باسیاں کے کھلے آسمان تلے تمبو (Tents (میں زندگی بسر کرنے والے متثرین کی ووٹ لینے کیلئے صرف ۔۔۔۔۔۔ جی ہاں ,صرف ایک بار امداد اور اس کے دستاویزی ثبوت کیلئے اخبارات میں کلر فوٹوز کی اشاعت کے بعد وعدے وعید کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو گیا لیکن۔۔۔۔ کیا کیا جائے کہ ناظم بیروٹ خالد عباس عباسی اور نائب ناظم قاضی سجاول خان اپنے سرکاری اور نجی کاروبار، جنازوں میں شرکت اور تقریبات عروسی میں دولہا دولہن کے ساتھ اپنے فوٹو سیشن میں اس قدر مصروف ہیں کہ بیروٹ کے عوام کیلئے ان کے پاس اب وقت ہی نہیں، فون کیا جائے تو وہ اب اجنبی نمبر کی کال کو بھی اٹنڈ کرنے سے بھی قاصر ہیں، قاضی سجاول خان سماجی خدمات کے حوالے سے بیروٹ خورد کے عبدالستار ایدھی کہلاتے ہیں مگر اب اسلام ّباد، ایبٹ ّباد اور پشاور کی اقتداری راہداریوں کی ہوا انہیں بھی لگ گئی ہے اور وہ بھی اب اپنے پسماندہ بیروٹ خورد کے مسائل کے ہاتھوں مجبور لوگوں سے کنی کتراتے نظر آتے ہیں اور مقامی تعلیمی، طبی اور سماجی مسائل سے فرار کی میراتھن ریس میں دوڑ رہے ہیں ، اس نئے مقامی وی آئی پی کلچر کی اٹھان کے بعد ایک طرف اپنے فرائض سے غفلت برتنے والے والے سرکاری و غیر سرکاری فرعونوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے وہاں ہی بیروٹ کا بے وسائل، مہنگائی کے ہاتھوں مجبور و لاچار عام آدمی اس ٹھنڈے ٹھار موسم میں ایک آہ سرد لے کر رہ جاتا ہے اور پھر مایوسیوں کے عمیق سمندر میں غوطے لگانا شروع کر دیتا ہے۔
اہلیان بیروٹ کو اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں کہ کون سا عوامی نمائندہ کس پارٹی کا ہے وہ صرف اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں، یو سی بیروٹ کے مسائل وہی ہیں جو پاکستان بھر کے ہر علاقے کے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ جہاں جہاں قیادت درد دل اور لگن سے کام کر رہی ہے وہاں کا عام آدمی کم مسائل کا شکار ہے مگر جہاں موسمی سردی بیروٹ کے عوامی نمائندوں کے عوامی خدمت کے مزاج کو بھی منجمد کر دے تو پھر ۔۔۔۔۔ عام آدمی اپنی قسمت پر کہاں ناز کر سکتا ہے، وہ تو آہ سرد  بھر کر بجلی کی گھنٹوں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ، راولپنڈی سے آنے والی اشیائے خوردونوش دگنی قیمت پر خریدنے، مقامی یوٹیلیٹی سٹورز صرف بااثر افراد کیلئے مختص ہونے یا رات کی تاریکی میں مقامی دکانداروں کیلئے منڈی بننے کی وجہ سے مزید دکھی ہو رہا ہے،  ضلع ، تحصیل اور مقامی ویلیج کونسلوں کے چیئرمینوں اور کونسلروں کے نوٹس میں عام آدمی کوئی مسئلہ لائے تو پہلے تو وہ اللہ رب العزت، پھر خاتم الرسل ﷺ اور آخر مٰ قرآن حکیم فرقان جمید کی قسمیں اٹھا کر عوامی مجرموں کی بریت کا اعلان کرتے ہیں یا پھر اپنی بے خبری اور بے بسی کا رونا روتے ہیں، آپ صرف ان زلزلہ سے کرچی کرچی ہونے والے بوائز ہائی سکول اور سرکل بکوٹ کے حکمرانوں کے چہیتے ٹھیکیداروں کی لوٹ مار کے شکار گرلز ہائی سکول کی مثال لیجئے، بوائز سکول کے پتھر، کھڑکیاں ،دروازے، سیلنگ وغیرہ مقامی لٹیرے دن کے اجالے میں ٹرالیاں بھر بھر کر لے جا رہے ہیں، میرے ہم وطنو۔۔۔۔ کیا اس لوٹ مار کو روکنے کیلئے گورنر سردار مہتاب احمد خان ، ایم این اے ڈاکٹر اظہر یا ایم پی اے سردار فرید خان کے پاس جانا پڑے گا۔۔۔۔؟ آخر ویلیج کونسل بیروٹ کے چیئر مین ندیم عباسی، وائس چیئرمیں عتیق عباسی، ویلج کونسل کہو شرقی کے چیئرمین اسد عباسی، وائس چیئرمین گفلزمان اور ان کے رفقاء کس مرض کی دوا ہیں کہ وہ ان سکولوں کے میٹیریل کو شیر مادر سمجھ کر لے جانے والے لٹیروں کو لگام نہیں ڈال سکتے، ہم سمجھتے ہیں کہ ان دونوں سکولوں کے معاملات سخت الجھے ہوئے ہیں، عوام علاقہ اسد بات سے بھی بے خبر نہیں کہ بیروٹ کے غریب لوگوں کی اولادوں کو ان پڑھ رکھنے کی اس سازش اور مقامی سطح پر تعلیمی ساہوکاروں کی دکانداری کے پہچھے کون کون سی ان دیکھی شریفانہ طاقتیں اپنا کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں۔۔۔ بہر حال۔۔۔۔ اب یہ ذمہ داری ان ویلج کونسلوں کے تمام چھوٹے بڑے عہدیداروں کی ہے کہ وہ اس تعلیمی درسگاہ کے کم از کم میٹیریل کو ہی لٹیروں سے بچا لیں، ان کا عوام علاقہ پر بہت بڑا احسان ہو گا۔
ان دنوں سکولوں میں اڑھائی ماہ کی سرمائی تعطیلات جاری ہیں، ان تعطیلات میں نوجوانوں کھیتوں میں کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں، اگر گیند کسی کے صحن میں چلی جائے تو پھر ان کھلاڑیوں کو اہلخانہ کی ۔۔۔ پھٹھ سلٹھی (Insult) کا نشانہ بننا پڑتا ہے، ایسا کیوں ہے، اس کی بڑی وجہ تعلیمی لحاظ سے بڑوں کی اس بڑی یونین کونسل میں کھیل کا کوئی سرکاری گرائونڈ نہیں ہے، اس کے باوجود بیروٹ کے ان بے وسائل کھلاڑیوں کی اہلیت دیکھئے کہ انہوں نے گزشتہ ماہ ایوبیہ میں ہونے والے کرکٹ ٹورنامنٹ میں چیت کا اعزاز ٹرافی سمیت اپنے نام کیا، بیروٹ میں بھی منعقدہ ٹورنامنٹ میں وی سی چیئرمین ندیم عباسی نے ونر اور رنر اپ ٹیموں میں ٹرافیاں تقسیم کیں، اس موقع پر کسی نے یہ لب کشائی نہیں کی کہ دیہرہ کہو شرقی میں دس  سال پہلے جس کرکٹ گرائونڈ کا سردار شمعون خان نے افتتاح کیا تھا اس کا کیا ہوا یا وہ بیروٹ کی لینڈ مافیا کی بھینٹ چڑھ گیا، کافی خطیر رقم کنیر کس میں بھی کرکٹ گرائونڈ کی تعمیر کے نام پر حکمرانوں کے چہیتے ٹھیکیداروں کی جیبیں گرم کرنے کیلئے مختص کی گئی تھی لیکن یہ کرکٹ گرائونڈ بھی مری سے آنے والی ایک ہی موہری (طغیانی) کی نذر ہو گیا۔
یو سی بیروٹ کی ٹمبر مافیا

حالیہ پونژل (Eartquake) کی سیریز میں ایک بار پھر یو سی بیروٹ متاثر ہوئی ہے مگر اس کی شدت دس سال پہلے والے پونژل (زلزلہ) کی نہیں تھی، ہر وی سی میں درجنوں مکانات متاثر ہوئے ہیں، سابق ناظم آفاق عباسی اور ان کے رفقاء کی طرح بیروٹ کی چھ ویلیج کونسلوں کے چیئرمینوں اور کونسلروں کی کلیم بنانے اور جمع کروانے کی کاوشیں قابل قدر ہیں مگر تین ماہ گزرنے کے باوجود ضلعی حکام ابھی بیروٹ کے زلزلہ متاثرین کو فراموش کئے ہوئے ہیں، پتہ نہیں کہ اس کے بارے میں خالد عباس اور قاضی سجاول نے اپنے بڑوں سے کوئی بات بھی کی ہے یا نہیں، یہ زلزلہ متاثرین آج بھی اپنے ایم این اے اور ایم پی اے کی راہیں تک رہے ہیں کہ شاید وہ ان کی اشک شوئی کر سکیں، ویلیج کونسلوں کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہم نے ابتدائی کارروائی کر کے کیس ایبٹ آباد بھجوا دیئے ہیں اب متاثرین کیلئے ضلعی حکام اور صوبائی اتھارٹیز سے فنڈز حاصل کرنا خالد رباس، قاضی سجاول، سردار فرید خان اور ڈاکٹر اظہر کا کام ہے، ہمارا بھی سرکل بکوٹ کے  ان صاحبان اقتدار سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے حلقے اور یو سی بیروٹ کے زلزلہ متاثرین کو ضلعی  صوبائی حکومت سے امداد دلوا کر ان کی دعائیں لیں، ایسا نہ ہو کہ یو سی بیروٹ کے ان بے کس و بے بس اور مجبور و مقہور زلزلہ متاثرین کی دلدوز آہیں اور نیم شب سسکیاں عرش بریں کو ہلا کر رکھ دیں اور جہاں بڑوں بڑوں کے تاج و تخت خاک میں مل گئے ان کی ایم این اے شپ، ایم پی اے شپ، یو سی کی چیئرمینی اور جنرل کونسلری کا بھی نام و نشاں نہ رہے کیونکہ قدرت کے فیصلے اسلام آباد اور پشاور کے ایوان ہائے اقتدار کے تابع فرمان نہیں ہوا کرتے

بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از در حق....... بہر استقبال می آید

******************* 
 

سرکل بکوٹ میں روشنی  کے سفر کی داستاں
اگر بجلی نہ ہو تو ۔۔۔ زندگی ادھوری بلکہ نا مکمل لگتی ہے
اہلیان کوہسار گھروں کو گرم رکھنے اور روشنی کیلئے دیہلیاں جلایا کرتے تھے
دئیے میں سرسوں کے تیل میں سوتری ڈال دیتے تھے ہمیں سرخ لو عطا کرتے تھے
پہلی اور دوسری جنگ  کے بعد ہمارے فوجی روشنی کا ایک نیا چراغ لائے یہ لالٹین یا بتی  تھی
1935مری شہر بشمول سنی بنک، کلڈنہ، جھیکا گلی، گھڑیال اور لوئر ٹوپہ میں اور1940میں گھوڑا ڈھاکہ (موجودہ خاسپور) بجلی کے قمقموں سے جگمگانے لگے
۔1982میں دیول سے تین سالوں کا سفر طے کر کے بجلی  بیروٹ پہنچ سکی
سرکل بکوٹ دو فیڈرز میں تقسیم  ، بیروٹ کے 63 اور نمبل سمیت ککمنگ تک 55 ٹرانسفارمرز کیلئے بیروٹ کلاں اور خورد کو دو اور نمبل فیڈر کو بارہ ملازمین دئے گئے
بیروٹ کلاں اور خورد کو دو فیڈرز میں تقسیم کر کے ہر وارڈ میں ایک ایک واپڈا اہلکار تعینات کیا جائے اور شکایات مراکز کھولے جائیں ۔۔۔۔۔ وی سی بیروٹ کلاں کے چیئرمین ندیم عباسی اور ان کی کابینہ کا مطالبہ
تحقیق و تحریر: عبیداللہ علوی
آج ہم تاریخ کے ترقی یافتہ ترین دور میں رہ رہے ہیں، اس دور کی روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ زندگی بسر کرنے کی لازمی ضرورت ۔۔۔ بجلی ۔۔۔ اور رابطے کے علاوہ انٹر نیٹ اور پر خطر مقامات پر سلفیاں بنانے کیلئے ۔۔۔ اینڈرائیڈ یا ٹچ موبائل ۔۔۔ ہے، کچھ دیر کیلئے ۔۔۔ موبائل کو بھول جائیے ۔۔۔ لیکن اگر بجلی نہ ہو تو ۔۔۔ زندگی سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ادھوری بلکہ نا مکمل لگتی ہے ۔۔۔ میں اورآپ وزیر اعظم نواز شریف کی حقیقی بڑی بہن کے بیٹے اور وفاقی وزیر واپڈا چوہدری عابد شیر علی خان کوجھولیاں پھیلا کر بد دعائیں دیتے ہیں ۔۔۔ کہ تم نے ہمیں پتھر کے دور میں پہنچا دیا ۔۔۔ بجلی نہ ہو تو ۔۔۔ تو اپنا گھر بھی اجڑا ہوا دیار لگتا ہے ۔۔۔ جہاں دل لگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔ نئی نسل اس دور کو نہیں جانتی جب ہم اہلیان کوہسار ۔۔۔ گھروں کو گرم رکھنے اور روشنی کیلئے دیہلیاں جلایا کرتے تھے، پھر ہم نے ترقی کی تو ۔۔۔ ہمارے گھر دئیے سے آشنا ہوئے ۔۔۔ سرسوں کے تیل میں ہم سوتری ڈال دیتے تھے ۔۔۔ یہ سوتری تیل چوس کر ہمیں مچلتی ہوئی سرخ لو عطا کرتی تھی ۔۔۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم لڑنے کیلئے جانے والے ہمارے جوان فوزی (فوجی) انگریزوں کے ساتھ ایشیائے کوچک، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور مشرق بعید کے محاذوں پر گئے ۔۔۔ واپسی پر وہاں سے اپنے ساتھ کراکری (چینی کے برتن)، چائے اورحقہ کے علاوہ روشنی بکھیرنے والا ایک نئے قسم کا جرمن ساختہ چراغ بھی لائے جسے ہم ۔۔۔ لالٹین یا بتی ۔۔۔ کہا کرتے تھے ۔۔۔ ہم تاریک دور سے۔۔۔ نیم تاریک دور میں داخل ہو گئے، 1952کے بعد ہمیں نیم تاریک دور سے نیم روشن دور میں داخلہ ملا ۔۔۔ یہ پیٹرو میکس، گیس یا بڑے بت ۔۔۔ کا دور تھا ۔ اور اسے ہم اجتماعی خوشی غمی کی تقریب میں جلا کر 20 والٹ کے بلب جیسی روشنی حاصل کرتے تھے ۔۔۔ بتی اور اس میں صرف یہ فرق تھا کہ اس میں سٹوپ کی طڑھ ہوا بھری جاتی تھی اور ایک مینٹل اس میں لگایا جاتا تھا ۔۔۔۔ مینٹل ہی زرد مگر تیز روشنی بکھیرتا تھا ۔
1935
میں مری شہر بشمول سنی بنک، کلڈنہ، جھیکا گلی، گھڑیال اور لوئر ٹوپہ اور1940میں گھوڑا ڈھاکہ (موجودہ خاسپور) بجلی کے قمقموں سے جگمگانے لگے ۔۔۔ 1981میں دیول میں بجلی آچکی تھی اور ہم اہلیان سرکل بکوٹ ۔۔۔ حسرت بھری نظروں سے اس طرف دیکھتے تو دل اچھل کر ۔۔۔ منہ میں آ جاتا تھا ۔۔۔ سابق صدر جنرل ضیاالحق مرحوم نے ۔۔۔ ہمارے لئے بجلی منظور کی جو ۔۔۔1982میں دیول سے تین سالوں کا سفر طے کر کے بیروٹ پہنچ سکی ۔۔۔ ہم اہلیان بیروٹ نے اللہ کے فضل و کرم سے ۔۔۔ بجلی کے باقاعدہ استعمال سے پہلے ۔۔۔ آزمائشی یا ٹرائی کے طور پر ۔۔۔ اپنے ماہرین بجلی کے کنڈا سسٹم سے سب سے پہلے خانہ خدا یعنی مساجد کو اس سے روشن کیا ۔۔۔ کیا مزا ہوتا ہے چوری کی بجلی سے روشن بلبو ں کی لو ۔۔۔ اور۔۔۔ چلتے پنکھوں کی ہوا میں ۔۔۔ فرضی اور نفلی عبادت کا ۔۔۔ ؟ اس کی بابت وہ پنجگانہ نمازوں کے عبادت گزار بہتر بتا سکتے ہیں ۔۔۔ جنہوں نے اللہ کے سامنے جبین نیاز کو سجدہ کراتے اور لبوں سے ذکر کرتے ہوئے چوری کی اس بجلی کی برکتیں لوٹی ہوں ۔۔۔ پھر ۔۔۔ ہم باقاعدہ سرکاری میٹروں والی بجلی استعمال کرنے لگے ۔۔۔ اب ہم جدید دور میں نہ صرف داخل ہو گئے تھے بلکہ ۔۔۔ ماڈرن بھی ہو گئے تھے ۔۔۔ ہمارا طرز حیات (Life style) بھی بدل گیا ۔۔۔ زبان (Language) بھی نہ صرف ماڈرن بلکہ بدن بولی (Body Language) سے بھی ہم بیروٹ کے ہوتے ہوئے بھی بیروٹ کے نہیں لگ رہے تھے ۔۔۔ طرز معاشرت میں بھی جدت سے رچ بس گئی تھی ۔۔۔ یہاں تک کہ کمپیوٹر اور موبائل آنے کے بعد ۔۔۔ ہم الٹرا ماڈرن میرا تھن ریس میں دوڑے جا رہے ہیں ۔۔۔ کیونکہ ہم نے ابھی مزید ترقی کرنا ہے ، خواہ ہمارے تعلیمی ادارے ٹنٹوں میں، طبی ادارے مساجد کے تہہ خانوں میں ۔۔۔ یا ان کی عمارات میں گدھے ہی کیوں نہ بندھے ہوئے ہوں ۔۔۔ ہم نے ابھی ترق ترق کر مزید ترقی کرنا ہے ۔۔۔
بجلی آئے کافی عرصہ ہو گیا تھا ۔۔۔ حکومت نے کے پی کے کے ساتھ ہمارا رشتہ مزید مضبوط کرنے کی سوچی ۔۔۔ ہم اہلیان بیروٹ سے باسیاں میں گرڈ سٹیشن کے لئے زمین مانگی ۔۔۔ بادشاہو ۔۔۔ ہم پہلے ہی کنالوں سے مرلوں میں آ چکے ہیں، ہمارے پاس زمین کہاں ۔۔۔؟ واپڈا نے یہ گرڈ سٹیشن مناسہ آزاد کشمیر کی وسیع اور فالتو زمینوں پر شفٹ کر دیا جہاں صرف ڈیڑھ کنال اراضی پر قائم اس گرڈ سٹیشن میں 85 سے زائد مقامی لوگ ملازمت کر رہے ہیں، دو تین ہوٹل اور چند دکانیں بھی مقامی لوگوں کو روٹی روزی فراہم کر رہی ہیں۔۔۔ اس گرڈ سٹیشن کی تکمیل کے ساتھ ہی ہمارا جھیکا گلی سے بجلی کا رشتہ ختم ہو گیا اور سرکل بکوٹ کو بجلی فراہمی کی ذمہ داری مناسہ کے نازک کندھون پر آ پڑی ۔۔۔ ایک دوسال بعد ۔۔۔ مناسہ کے ملازمین نے متفقہ طور پر ۔۔۔ اپنی رٹ (Writ) نافذ کرنے کا فیصلہ کیا اور ۔۔۔ وقت بے وقت ۔۔۔ وقفے وقفے سے اور پھر طویل اور لگا تار بجلی بند ہونے لگی ۔۔۔ اہلیان سرکل بکوٹ کی بھی ایک رٹ تھی ۔۔۔ مگر اس رٹ کا طویل لوڈ شیڈنگ نے بھرکس نکال دیا ۔۔۔ شکایت مرکز تک پہنچی ۔۔۔ تو آن واحد میں رٹ نافذ کرنے والے سب ملازمین کے تبادلے ہو گئے ۔۔۔ مزید ریلیف دینے کیلئے ۔۔۔ سرکل بکوٹ کو دو فیڈرز میں تقسیم کر دیا گیا، بیروٹ کے 63 اور نمبل سمیت ککمنگ تک 55 ٹرانسفارمرز کیلئے بیروٹ اور نمبل میں ایک ایک فیڈر بنا کر بیروٹ کلاں اور خورد کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی کیلئے دو اور نمبل فیڈر کو 14ملازمین دئے گئے ۔۔۔ بجلی کی دونوں علاقوں کو بلا تعطل بجلی فراہمی ہونے لگی ۔۔۔ مگر ۔۔۔ کبھی بجلی کا کوئی مسئلہ باسیاں میں پیدا ہوتا تو پتا چلتا کہ ایک ملازم دیول کے نیچے بانڈی سیداں میں تاریں درست کر رہا ہے، دوسرا لہورمیں بجلی درستگی میں مصروف ہے ۔۔۔ اس بجلی فالٹ کی درستگی کیلئے اہلیان باسیاں سمیت بیروٹ خورد کے بجلی صارفین کو آج کل تین دن سے ایک ہفتہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اب ہمیں کیا کرنا چائیے ۔۔۔؟ آج صبح ہی ویلیج کونسل بیروٹ کلاں کے سیاہ سفید کے مالک چیئرمین ندیم عباسی اور ان کی کابینہ سے بات ہوئی ۔۔۔ اس مسئلے پر سب کا متفقہ مطالبہ تھا کہ ۔۔۔ بیروٹ کلاں اور خورد کو ۔۔۔ دو فیڈرز میں تقسیم کیا جائے اور ۔۔۔ دونوں وی سیز کی ہر وارڈ میں بلا تعطل بجلی کی فراہمی کیلئے ایک ایک واپڈا اہلکار تعینات کیا جائے ۔۔۔ اس سے جہاں لوگوں کی شکایات کا بر وقت ازالہ ہو گا وہاں ہی واپڈا کے ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا، انہوں نے کہا کہ ۔۔۔ بیروٹ کلاں اور خورد میں دو شکایات سینٹر بھی اسی طرح کھولے جائیں ۔۔۔ جیسے نمبل فیڈر کی ہر وی سی میں کھولے گئے ہیں ۔۔۔ کاش۔۔۔ ہمارے ضلعی نمائندے جناب خالد عباس عباسی صاحب اور سادے سے درویش تحصیل نمائندے جناب قاضی سجاول صاحب بھی اپنی بے حد گھریلو اور پارٹی مصروفیات سے ۔۔۔ کچھ لمحات نکال کر ۔۔۔ بیروٹ کلاں اور خورد کے بجلی صارفین کا یہ مسئلہ بھی حل کروا سکیں ۔۔۔ سرداران ملکوٹ اور ایبٹ آبادی ڈاکٹروں سے ۔۔۔ اس سلسلے میں کوئی توقع رکھنا ۔۔۔ اپنے آپ سے ۔۔۔ فراڈ کرنے کے مترادف ہے۔
چلتے چلتے ۔۔۔ اہلیان مولیا کو مبارکباد ہو ۔۔۔ 300 روپے میں لوڈ شیڈنگ فری بجلی کی مبارکباد ۔۔۔ مگر آج کی نیوز کے مطابق ۔۔۔ آپ کو بھی اپر اور لوئر کی سیاست میں الجھایا جا رہا ہے ۔۔۔ یاد رکھئیے ۔۔۔ میرے اور آپ کے سیاستکاروں کی سیاسی زندگی ۔۔۔ آپ کے اختلافات میں ہے ۔۔۔ پھر آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ ۔۔۔ لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی ۔۔۔۔؟
 

No comments:

Post a Comment